جدائیوں کے تصور ہی سے رلاؤں اسے
جدائیوں کے تصور ہی سے رلاؤں اسے میں جھوٹ موٹ کا قصہ کوئی سناؤں اسے اسے یقین ہے کتنا مری وفاؤں کا خلاف اپنے کسی روز ورغلاؤں اسے وہ تپتی دھوپ میں بھی ساتھ میرے آئے گا مگر میں چاندنی راتوں میں آزماؤں اسے غموں کے صحرا میں پھرتا رہوں اسے لے کر اداسیوں کے سمندر میں ساتھ لاؤں ...