عشق سے اجتناب کر لینا
عشق سے اجتناب کر لینا
اپنی مٹی خراب کر لینا
ہم نے دنیا کو خوب جھیلا ہے
ہم سے کچھ اکتساب کر لینا
بے بسی سے نجات مل جائے
پھر سوال و جواب کر لینا
چھوڑ عزت مآب لوگوں کو
خود کو عالی جناب کر لینا
کل تجھے کچھ گناہ کرنے ہیں
آج کار ثواب کر لینا
اس کو بھر لینا اپنی آنکھوں میں
اک حقیقت کو خواب کر لینا
کیا کمی ہے حسین چہروں کی
پھر نیا انتخاب کر لینا
تم سر عام ایک دن حامدؔ
روح کو بے نقاب کر لینا
ہمہ تن گوش ہے یہ ویرانی
یار حامدؔ خطاب کر لینا