Hairat shimlavii

حیرت شملوی

  • 1901 - 1954

حیرت شملوی کی غزل

    ہلاک غمزۂ باطل نہیں ہے

    ہلاک غمزۂ باطل نہیں ہے مرے سینے میں ایسا دل نہیں ہے نہیں ہے اک سکون دل نہیں ہے وگرنہ کیا مجھے حاصل نہیں ہے زمانے کی مسیحائی سے حاصل وہی جب چارہ ساز دل نہیں ہے یہی کہتا ہوں دل سے ہر قدم پر ارے ظالم یہی منزل نہیں ہے وہ ایسا کون سا آنسو ہے جس میں مرا خون جگر شامل نہیں ہے محبت سے ...

    مزید پڑھیے

    اتر کر دل میں دل پر بار کیوں ہے

    اتر کر دل میں دل پر بار کیوں ہے محبت جان کا آزار کیوں ہے روا ہو یا دعا بیکار کیوں ہے یہاں اتنا کوئی ناچار کیوں ہے یہاں دامان شوق و آرزو میں گل تر کیوں نہیں ہے خار کیوں ہے علاج درد دل ہوتے ہوئے بھی دگر گوں حالت بیمار کیوں ہے یہ دل میں درد یہ آنکھوں میں آنسو یہ لب پر آہ آتش بار ...

    مزید پڑھیے

    اگرچہ عہد جنوں کی حکایتیں ہیں اور

    اگرچہ عہد جنوں کی حکایتیں ہیں اور زبان خلق پہ لیکن روایتیں ہیں اور توجہات تو ہیں ان کی دوسری پر بھی ہمارے حال پہ لیکن عنایتیں ہیں اور یہی نہیں کہ اٹھائی نگاہ دیکھ لیا کسی غریب کے دل کی رعایتیں ہیں اور کہاں کا شکر کہاں کا سپاس اے حیرتؔ یہاں تو چارہ گروں سے شکایتیں ہیں اور

    مزید پڑھیے

    اک تو خود اپنی غمگینی

    اک تو خود اپنی غمگینی اس پر ان کی نکتہ چینی اپنی شیرینی بھی تلخی ان کی تلخی بھی شیرینی کھل جائے گا یہ بھی اک دن کس نے کس کی راحت چھینی کافی ہے کیا یہ کہہ دینا سب حالات کی ہے سنگینی کر نہیں سکتی ہم کو قائل صرف عبارت کی رنگینی ہے یہ وفا وہ جرم محبت ہے جس کے پاداش یقینی کیا معلوم ...

    مزید پڑھیے

    حد سے گزری ہے ابتلا میری

    حد سے گزری ہے ابتلا میری اب تو سن لے مرا خدا میری آج بیگانہ وہ نگاہیں ہیں تھیں جو مدت سے آشنا میری کون کرتا ہے مجھ غریب پہ رحم کون سنتا ہے التجا میری ہوں وہ بیمار غم کہ مشکل سے کر سکے گا کوئی دوا میری نہ ملا دل کا قدرداں نہ ملا یوں ہی رسوا ہوئی وفا میری کوئی انصاف بھی ہے دنیا ...

    مزید پڑھیے

    آج یہ سوچنے بیٹھا ہوں کہ کل کیا ہوگا

    آج یہ سوچنے بیٹھا ہوں کہ کل کیا ہوگا اس سے بڑھ کر بھی کسی سر میں خلل کیا ہوگا آج کچھ ہے تو سہی حال کسی کا بہتر یہ خدا ہی کو ہے معلوم کہ کل کیا ہوگا کام کی بات ہے کہنے کو تو کہہ دوں لیکن فکر ہی جب نہیں کوئی تو عمل کیا ہوگا ایک دن اس کی محبت میں فنا ہو جانا اور اس عقدۂ دشوار کا حل کیا ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی تمنا کئے جائیے

    کسی کی تمنا کئے جائیے اسی آرزو میں جئے جائیے زمانے کے جتنے بھی آلام ہوں دل ناتواں پر لئے جائیے اگر ہے یہی شیوۂ دوستی دیے جائیے غم دیے جائیے

    مزید پڑھیے