آلام محبت سے جی چھوٹ گئے ہوں گے
آلام محبت سے جی چھوٹ گئے ہوں گے معلوم نہیں کتنے دل ٹوٹ گئے ہوں گے یاران وفا پیشہ جو چھوڑ چکے دنیا اس کشمکش غم سے تو چھوٹ گئے ہوں گے
آلام محبت سے جی چھوٹ گئے ہوں گے معلوم نہیں کتنے دل ٹوٹ گئے ہوں گے یاران وفا پیشہ جو چھوڑ چکے دنیا اس کشمکش غم سے تو چھوٹ گئے ہوں گے
ہلاک غمزۂ باطل نہیں ہے مرے سینے میں ایسا دل نہیں ہے نہیں ہے اک سکون دل نہیں ہے وگرنہ کیا مجھے حاصل نہیں ہے زمانے کی مسیحائی سے حاصل وہی جب چارہ ساز دل نہیں ہے یہی کہتا ہوں دل سے ہر قدم پر ارے ظالم یہی منزل نہیں ہے وہ ایسا کون سا آنسو ہے جس میں مرا خون جگر شامل نہیں ہے محبت سے ...
اتر کر دل میں دل پر بار کیوں ہے محبت جان کا آزار کیوں ہے روا ہو یا دعا بیکار کیوں ہے یہاں اتنا کوئی ناچار کیوں ہے یہاں دامان شوق و آرزو میں گل تر کیوں نہیں ہے خار کیوں ہے علاج درد دل ہوتے ہوئے بھی دگر گوں حالت بیمار کیوں ہے یہ دل میں درد یہ آنکھوں میں آنسو یہ لب پر آہ آتش بار ...
اگرچہ عہد جنوں کی حکایتیں ہیں اور زبان خلق پہ لیکن روایتیں ہیں اور توجہات تو ہیں ان کی دوسری پر بھی ہمارے حال پہ لیکن عنایتیں ہیں اور یہی نہیں کہ اٹھائی نگاہ دیکھ لیا کسی غریب کے دل کی رعایتیں ہیں اور کہاں کا شکر کہاں کا سپاس اے حیرتؔ یہاں تو چارہ گروں سے شکایتیں ہیں اور
اک تو خود اپنی غمگینی اس پر ان کی نکتہ چینی اپنی شیرینی بھی تلخی ان کی تلخی بھی شیرینی کھل جائے گا یہ بھی اک دن کس نے کس کی راحت چھینی کافی ہے کیا یہ کہہ دینا سب حالات کی ہے سنگینی کر نہیں سکتی ہم کو قائل صرف عبارت کی رنگینی ہے یہ وفا وہ جرم محبت ہے جس کے پاداش یقینی کیا معلوم ...
حد سے گزری ہے ابتلا میری اب تو سن لے مرا خدا میری آج بیگانہ وہ نگاہیں ہیں تھیں جو مدت سے آشنا میری کون کرتا ہے مجھ غریب پہ رحم کون سنتا ہے التجا میری ہوں وہ بیمار غم کہ مشکل سے کر سکے گا کوئی دوا میری نہ ملا دل کا قدرداں نہ ملا یوں ہی رسوا ہوئی وفا میری کوئی انصاف بھی ہے دنیا ...
آج یہ سوچنے بیٹھا ہوں کہ کل کیا ہوگا اس سے بڑھ کر بھی کسی سر میں خلل کیا ہوگا آج کچھ ہے تو سہی حال کسی کا بہتر یہ خدا ہی کو ہے معلوم کہ کل کیا ہوگا کام کی بات ہے کہنے کو تو کہہ دوں لیکن فکر ہی جب نہیں کوئی تو عمل کیا ہوگا ایک دن اس کی محبت میں فنا ہو جانا اور اس عقدۂ دشوار کا حل کیا ...
کسی کی تمنا کئے جائیے اسی آرزو میں جئے جائیے زمانے کے جتنے بھی آلام ہوں دل ناتواں پر لئے جائیے اگر ہے یہی شیوۂ دوستی دیے جائیے غم دیے جائیے