اتر کر دل میں دل پر بار کیوں ہے
اتر کر دل میں دل پر بار کیوں ہے
محبت جان کا آزار کیوں ہے
روا ہو یا دعا بیکار کیوں ہے
یہاں اتنا کوئی ناچار کیوں ہے
یہاں دامان شوق و آرزو میں
گل تر کیوں نہیں ہے خار کیوں ہے
علاج درد دل ہوتے ہوئے بھی
دگر گوں حالت بیمار کیوں ہے
یہ دل میں درد یہ آنکھوں میں آنسو
یہ لب پر آہ آتش بار کیوں ہے
کسی کے نام سے منسوب ہو کر
کوئی رسوا مہ بازار کیوں ہے
زباں بھی جب نہیں منہ میں کسی کے
کسی کے ہاتھ میں تلوار کیوں ہے
خطا کوئی نہیں لیکن خطا کا
کسی کے سامنے اقرار کیوں ہے
کسی کی سرفروشی سے کسی کو
نہیں معلوم یہ انکار کیوں ہے
کسی کو اس قدر اس بے رخی پر
خیال خاطر دل دار کیوں ہے
کسی کے ظلم ہائے نا روا کی
جو پہلے تھی وہی رفتار کیوں ہے
چلو جانے بھی دو اس گفتگو کو
اسی اک بات کی تکرار کیوں ہے
نہیں سنتا اگر کوئی کسی کی
کسی کو اس قدر اصرار کیوں ہے
بھروسا ہے اگر اپنے پہ حیرتؔ
تو پھر یہ منت اغیار کیوں ہے