آج یہ سوچنے بیٹھا ہوں کہ کل کیا ہوگا

آج یہ سوچنے بیٹھا ہوں کہ کل کیا ہوگا
اس سے بڑھ کر بھی کسی سر میں خلل کیا ہوگا


آج کچھ ہے تو سہی حال کسی کا بہتر
یہ خدا ہی کو ہے معلوم کہ کل کیا ہوگا


کام کی بات ہے کہنے کو تو کہہ دوں لیکن
فکر ہی جب نہیں کوئی تو عمل کیا ہوگا


ایک دن اس کی محبت میں فنا ہو جانا
اور اس عقدۂ دشوار کا حل کیا ہوگا


یہ غم و رنج ہی قسمت میں اگر لکھا ہے
اس میں تدبیر سے بھی رد و بدل کیا ہوگا


جس میں اک سوز بھی ہو ساز بھی ہو اے حیرتؔ
اس سے بڑھ کر کوئی انداز غزل کیا ہوگا