ہلاک غمزۂ باطل نہیں ہے

ہلاک غمزۂ باطل نہیں ہے
مرے سینے میں ایسا دل نہیں ہے


نہیں ہے اک سکون دل نہیں ہے
وگرنہ کیا مجھے حاصل نہیں ہے


زمانے کی مسیحائی سے حاصل
وہی جب چارہ ساز دل نہیں ہے


یہی کہتا ہوں دل سے ہر قدم پر
ارے ظالم یہی منزل نہیں ہے


وہ ایسا کون سا آنسو ہے جس میں
مرا خون جگر شامل نہیں ہے


محبت سے کوئی دیکھے تو دیکھے
کہ دل ہے کاسۂ سائل نہیں ہے


رہین غم سہی حیرتؔ مگر دل
چراغ کشتۂ محفل نہیں ہے