Hafeez Banarasi

حفیظ بنارسی

حفیظ بنارسی کی غزل

    لہو کی مے بنائی دل کا پیمانہ بنا ڈالا

    لہو کی مے بنائی دل کا پیمانہ بنا ڈالا جگر داروں نے مقتل کو بھی مے خانہ بنا ڈالا ہمارے جذبۂ تعمیر کی کچھ داد دو یارو کہ ہم نے بجلیوں کو شمع کا شانہ بنا ڈالا ستم ڈھاتے ہو لیکن لطف کا احساس ہوتا ہے اسی انداز نے دنیا کو دیوانہ بنا ڈالا بھری محفل میں ہم نے بات کر لی تھی ان آنکھوں ...

    مزید پڑھیے

    بھاگتے سایوں کے پیچھے تا بہ کے دوڑا کریں

    بھاگتے سایوں کے پیچھے تا بہ کے دوڑا کریں زندگی تو ہی بتا کب تک ترا پیچھا کریں روئے گل ہو چہرۂ مہتاب ہو یا حسن دوست ہر چمکتی چیز کو کچھ دور سے دیکھا کریں بے نیازی خود سراپا التجا بن جائے گی آپ اپنی داستاں میں حسن تو پیدا کریں دل کہ تھا خوش فہم آگاہ حقیقت ہو گیا شکر بھیجیں یا تری ...

    مزید پڑھیے

    جو نظر سے بیان ہوتی ہے

    جو نظر سے بیان ہوتی ہے کیا حسیں داستان ہوتی ہے پتھروں کو نہ ٹھوکریں مارو پتھروں میں بھی جان ہوتی ہے جس کو چھو دو تم اپنے قدموں سے وہ زمیں آسمان ہوتی ہے بے پیے بھی سرور ہوتا ہے جب محبت جوان ہوتی ہے زندگی تو اسی کی ہے جس پر وہ نظر مہربان ہوتی ہے جتنے اونچے خیال ہوتے ہیں اتنی ...

    مزید پڑھیے

    جب تصور میں کوئی ماہ جبیں ہوتا ہے

    جب تصور میں کوئی ماہ جبیں ہوتا ہے رات ہوتی ہے مگر دن کا یقیں ہوتا ہے اف وہ بیداد عنایت بھی تصدق جس پر ہائے وہ غم جو مسرت سے حسیں ہوتا ہے ہجر کی رات فسوں کارئ ظلمت مت پوچھ شمع جلتی ہے مگر نور نہیں ہوتا ہے دور تک ہم نے جو دیکھا تو یہ معلوم ہوا کہ وہ انساں کی رگ جاں سے قریں ہوتا ...

    مزید پڑھیے

    عشق میں ہر نفس عبادت ہے

    عشق میں ہر نفس عبادت ہے مذہب عشق آدمیت ہے اک زمانہ رقیب ہے میرا جب سے حاصل تری رفاقت ہے زندگی نام رنج و غم ہی سہی پھر بھی کس درجہ خوب صورت ہے اک محبت بھری نظر کے سوا اور کیا اہل دل کی قیمت ہے چند مخلص جہاں اکٹھا ہوں وہ جگہ اہل دل کی جنت ہے کون سلجھائے گیسوئے دوراں اپنی الجھن سے ...

    مزید پڑھیے

    گمراہ کہہ کے پہلے جو مجھ سے خفا ہوئے

    گمراہ کہہ کے پہلے جو مجھ سے خفا ہوئے آخر وہ میرے نقش قدم پر فدا ہوئے اب تک تو زندگی سے تعارف نہ تھا کوئی تم سے ملے تو زیست سے بھی آشنا ہوئے ایسا نہیں کہ دل ہی مقابل نہیں رہا تیر نگاہ ناز بھی اکثر خطا ہوئے میری نظر نے تم کو جمال آشنا کیا مجھ کو دعائیں دو کہ تم اک آئینہ ہوئے کیا ...

    مزید پڑھیے

    یہ حادثہ بھی شہر نگاراں میں ہو گیا

    یہ حادثہ بھی شہر نگاراں میں ہو گیا بے چہرگی کی بھیڑ میں ہر چہرہ کھو گیا جس کو سزا ملی تھی کہ جاگے تمام عمر سنتا ہوں آج موت کی بانہوں میں سو گیا حرکت کسی میں ہے نہ حرارت کسی میں ہے کیا شہر تھا جو برف کی چٹان ہو گیا میں اس کو نفرتوں کے سوا کچھ نہ دے سکا وہ چاہتوں کا بیج مرے دل میں بو ...

    مزید پڑھیے

    تیز جب خنجر بیداد کیا جائے گا

    تیز جب خنجر بیداد کیا جائے گا ہم غریبوں کا گلا یاد کیا جائے گا غیر کو خوش ہمیں ناشاد کیا جائے گا کب تلک یہ ستم ایجاد کیا جائے گا یہ تو بتلاؤ ہمیں شہر بسانے والو دل کا ویرانہ کب آباد کیا جائے گا اور کیا ہوگا ترے عہد ستم میں اے دوست روز تازہ ستم ایجاد کیا جائے گا یہ جہاں مردہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ اور بات کہ لہجہ اداس رکھتے ہیں

    یہ اور بات کہ لہجہ اداس رکھتے ہیں خزاں کے گیت بھی اپنی مٹھاس رکھتے ہیں کہیں تو کیا کہیں ہم ان کی سادہ لوحی کو جو قاتلوں سے ترحم کی آس رکھتے ہیں کسی کے سامنے پھیلائیں کس لیے دامن تمہارے درد کی دولت جو پاس رکھتے ہیں انہیں حیات کی تہمت نہ دو عبث یارو جو اپنا جسم نہ اپنا لباس رکھتے ...

    مزید پڑھیے

    کیا جرم ہمارا ہے بتا کیوں نہیں دیتے

    کیا جرم ہمارا ہے بتا کیوں نہیں دیتے مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے کیا جلوۂ معنی ہے دکھا کیوں نہیں دیتے دیوار حجابات گرا کیوں نہیں دیتے تم کو تو بڑا ناز مسیحائی تھا یارو بیمار ہے ہر شخص دوا کیوں نہیں دیتے کس دشت میں گم ہو گئے احباب ہمارے ہم کان لگائے ہیں صدا کیوں نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3