جو نظر سے بیان ہوتی ہے

جو نظر سے بیان ہوتی ہے
کیا حسیں داستان ہوتی ہے


پتھروں کو نہ ٹھوکریں مارو
پتھروں میں بھی جان ہوتی ہے


جس کو چھو دو تم اپنے قدموں سے
وہ زمیں آسمان ہوتی ہے


بے پیے بھی سرور ہوتا ہے
جب محبت جوان ہوتی ہے


زندگی تو اسی کی ہے جس پر
وہ نظر مہربان ہوتی ہے


جتنے اونچے خیال ہوتے ہیں
اتنی اونچی اڑان ہوتی ہے


آرزو کی زباں نہیں ہوتی
آرزو بے زبان ہوتی ہے


جس میں شامل ہو تلخئ غم بھی
کتنی میٹھی وہ تان ہوتی ہے


ان کی نظروں کا ہو فسوں جس میں
وہ غزل کی زبان ہوتی ہے


خار کی زندگیٔ بے رونق
پھول کی پاسبان ہوتی ہے


کون دیتا ہے روح کو آواز
جب حرم میں اذان ہوتی ہے


عشق کی زندگی حفیظؔ نہ پوچھ
ہر گھڑی امتحان ہوتی ہے