یہ اور بات کہ لہجہ اداس رکھتے ہیں
یہ اور بات کہ لہجہ اداس رکھتے ہیں
خزاں کے گیت بھی اپنی مٹھاس رکھتے ہیں
کہیں تو کیا کہیں ہم ان کی سادہ لوحی کو
جو قاتلوں سے ترحم کی آس رکھتے ہیں
کسی کے سامنے پھیلائیں کس لیے دامن
تمہارے درد کی دولت جو پاس رکھتے ہیں
انہیں حیات کی تہمت نہ دو عبث یارو
جو اپنا جسم نہ اپنا لباس رکھتے ہیں
قریب گل بدناں رہ چکے ہیں دیوانے
یہ خار وہ ہیں جو پھولوں کی باس رکھتے ہیں
کہاں بھگوئے کوئی اپنے خشک ہونٹوں کو
یہ دور وہ ہے کہ دریا بھی پیاس رکھتے ہیں
خدا کا شکر ادا کیجے خوش نصیبی پر
حفیظؔ آپ دل غم شناس رکھتے ہیں