لہو کی مے بنائی دل کا پیمانہ بنا ڈالا

لہو کی مے بنائی دل کا پیمانہ بنا ڈالا
جگر داروں نے مقتل کو بھی مے خانہ بنا ڈالا


ہمارے جذبۂ تعمیر کی کچھ داد دو یارو
کہ ہم نے بجلیوں کو شمع کا شانہ بنا ڈالا


ستم ڈھاتے ہو لیکن لطف کا احساس ہوتا ہے
اسی انداز نے دنیا کو دیوانہ بنا ڈالا


بھری محفل میں ہم نے بات کر لی تھی ان آنکھوں سے
بس اتنی بات کا یاروں نے افسانہ بنا ڈالا


مرے ذوق پرستش کی کرشمہ سازیاں دیکھو
کبھی کعبہ کبھی کعبہ کو بت خانہ بنا ڈالا


شکایت بجلیوں سے ہے نہ شکوہ باد صرصر سے
چمن کو خود چمن والوں نے ویرانہ بنا ڈالا


چلو اچھا ہوا دنیا حفیظؔ اب دور ہے ہم سے
محبت نے ہمیں دنیا سے بیگانہ بنا ڈالا