Hafeez Banarasi

حفیظ بنارسی

حفیظ بنارسی کی غزل

    یہ کیسی ہوائے غم و آزار چلی ہے

    یہ کیسی ہوائے غم و آزار چلی ہے خود باد بہاری بھی شرر بار چلی ہے دیکھی ہی نہ تھی جس نے شکست آج تک اپنی وہ چشم فسوں خیز بھی دل ہار چلی ہے اب کوئی حدیث قد و گیسو نہیں سنتا دنیا میں وہ رسم رسن و دار چلی ہے تکتا ہی نہیں کوئی مے و جام کی جانب کیا چال یہ تو نے نگہ یار چلی ہے وہ لوگ کہاں ...

    مزید پڑھیے

    مدت کی تشنگی کا انعام چاہتا ہوں

    مدت کی تشنگی کا انعام چاہتا ہوں مستی بھری نظر سے اک جام چاہتا ہوں اے گردش زمانہ زحمت تو ہوگی تجھ کو کچھ دیر کے لیے میں آرام چاہتا ہوں کل ہم سے کہہ رہا تھا شہرت طلب زمانہ تم کام چاہتے ہو میں نام چاہتا ہوں صبح حیات لے لے اے زلف یار لیکن میں تجھ سے اس کے بدلے اک شام چاہتا ہوں باد ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے عہد کا منظر عجیب منظر ہے

    ہمارے عہد کا منظر عجیب منظر ہے بہار چہرے پہ دل میں خزاں کا دفتر ہے نہ ہم سفر نا کوئی نقش پا نا رہبر ہے جنوں کی راہ میں کچھ ہے تو جان کا ڈر ہے ہر ایک لمحہ ہمیں ڈر ہے ٹوٹ جانے کا یہ زندگی ہے کہ بوسیدہ کانچ کا گھر ہے اسی سے لڑتے ہوئے ایک عمر بیت گئی مری انا ہی مرے راستے کا پتھر ...

    مزید پڑھیے

    حدیث تلخئ ایام سے تکلیف ہوتی ہے

    حدیث تلخئ ایام سے تکلیف ہوتی ہے سحر والوں کو ذکر شام سے تکلیف ہوتی ہے وہی کافر کہ جس کا نام تسکین دل و جاں تھا ستم ہے اب اسی کے نام سے تکلیف ہوتی ہے مقام ایسا بھی آتا ہے گزر گاہ محبت میں مسافر کو جہاں آرام سے تکلیف ہوتی ہے شکست دل کی منزل سے اگر گزرے تو کیا ہوگا ابھی تم کو شکست ...

    مزید پڑھیے

    جو پردوں میں خود کو چھپائے ہوئے ہیں

    جو پردوں میں خود کو چھپائے ہوئے ہیں قیامت وہی تو اٹھائے ہوئے ہیں تری انجمن میں جو آئے ہوئے ہیں غم دو جہاں کو بھلائے ہوئے ہیں کوئی شام کے وقت آئے گا لیکن سحر سے ہم آنکھیں بچھائے ہوئے ہیں جہاں بجلیاں خود اماں ڈھونڈھتی ہیں وہاں ہم نشیمن بنائے ہوئے ہیں غزل آبرو ہے تو اردو زباں ...

    مزید پڑھیے

    خفا ہے گر یہ خدائی تو فکر ہی کیا ہے

    خفا ہے گر یہ خدائی تو فکر ہی کیا ہے تری نگاہ سلامت مجھے کمی کیا ہے بس اک تجلیٔ رنگیں بس اک تبسم ناز ریاض دہر میں پھولوں کی زندگی کیا ہے خدا رسیدہ سہی لاکھ برگزیدہ سہی جو آدمی کو نہ سمجھے وہ آدمی کیا ہے عبث یہ مشق رکوع و سجود ہے یارو اگر پتہ نہیں مفہوم بندگی کیا ہے کہیں یہ لطف و ...

    مزید پڑھیے

    اک شگفتہ گلاب جیسا تھا

    اک شگفتہ گلاب جیسا تھا وہ بہاروں کے خواب جیسا تھا پڑھ لیا ہم نے حرف حرف اسے اس کا چہرہ کتاب کیسا تھا دور سے کچھ تھا اور قریب سے کچھ ہر سہارا سراب جیسا تھا ہم غریبوں کے واسطے ہر روز ایک روز حساب جیسا تھا کس قدر جلد اڑ گیا یارو وقت رنگ شباب جیسا تھا کیسے گزری ہے عمر کیا ...

    مزید پڑھیے

    وہ تو بیٹھے رہے سر جھکائے ہوئے

    وہ تو بیٹھے رہے سر جھکائے ہوئے جادو ان کی نگاہوں کے چلتے رہے مشکلوں نے بہت راہ روکی مگر جن کو منزل کی دھن تھی وہ چلتے رہے میں انہیں بھی گلے سے لگاتا رہا میرے بارے میں جو زہر اگلتے رہے ہم تو قائم رہے اپنی ہر بات پر تم برنگ زمانہ بدلتے رہے یاد کے جگنوؤں سے وہ عالم رہا دیپ بجھتے ...

    مزید پڑھیے

    آ جاؤ کہ مل کر ہم جینے کی بنا ڈالیں (ردیف .. ا)

    آ جاؤ کہ مل کر ہم جینے کی بنا ڈالیں یہ بار حیات اے دوست اٹھنے کا نہیں تنہا دنیا پہ مسلط ہے اوہام کی تاریکی ہم ہیں کہ جلائے ہیں اک شمع یقیں تنہا محتاج توجہ ہیں کچھ اور مسائل بھی کیوں ذہن میں پھرتی ہے اک نان جویں تنہا ہر مرغ خوش الحاں اب پرواز پہ مائل ہے گلشن میں نہ رہ جائے صیاد ...

    مزید پڑھیے

    جو پردوں میں خود کو چھپائے ہوئے ہیں

    جو پردوں میں خود کو چھپائے ہوئے ہیں قیامت وہی تو اٹھائے ہوئے ہیں تری انجمن میں جو آئے ہوئے ہیں غم دو جہاں کو بھلائے ہوئے ہیں پہاڑوں سے بھی جو اٹھائے نہ اٹھا وہ بار وفا ہم اٹھائے ہوئے ہیں کوئی شام کے وقت آئے گا لیکن سحر سے ہم آنکھیں بچھائے ہوئے ہیں جہاں بجلیاں خود اماں ڈھونڈتی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3