خفا ہے گر یہ خدائی تو فکر ہی کیا ہے
خفا ہے گر یہ خدائی تو فکر ہی کیا ہے
تری نگاہ سلامت مجھے کمی کیا ہے
بس اک تجلیٔ رنگیں بس اک تبسم ناز
ریاض دہر میں پھولوں کی زندگی کیا ہے
خدا رسیدہ سہی لاکھ برگزیدہ سہی
جو آدمی کو نہ سمجھے وہ آدمی کیا ہے
عبث یہ مشق رکوع و سجود ہے یارو
اگر پتہ نہیں مفہوم بندگی کیا ہے
کہیں یہ لطف و عنایت کی ابتدا تو نہیں
تمہیں بتاؤ یہ انداز برہمی کیا ہے
دلوں کے تار جو چھو لے وہی ہے شعر حفیظؔ
اگر یہ بات نہیں ہے تو شاعری کیا ہے