مدت کی تشنگی کا انعام چاہتا ہوں
مدت کی تشنگی کا انعام چاہتا ہوں
مستی بھری نظر سے اک جام چاہتا ہوں
اے گردش زمانہ زحمت تو ہوگی تجھ کو
کچھ دیر کے لیے میں آرام چاہتا ہوں
کل ہم سے کہہ رہا تھا شہرت طلب زمانہ
تم کام چاہتے ہو میں نام چاہتا ہوں
صبح حیات لے لے اے زلف یار لیکن
میں تجھ سے اس کے بدلے اک شام چاہتا ہوں
باد صبا سے کہہ دو میری طرف بھی آئے
میں بھی حفیظؔ ان کا پیغام چاہتا ہوں