Ghulam Mohammad Qasir

غلام محمد قاصر

پاکستان کے مقبول اور ممتاز شاعر

Ghulam Muhammad Qasir is considered to be one of the finest modern poets from Pakistan.

غلام محمد قاصر کی غزل

    پہلے اک شخص میری ذات بنا

    پہلے اک شخص میری ذات بنا اور پھر پوری کائنات بنا حسن نے خود کہا مصور سے پاؤں پر میرے کوئی ہاتھ بنا پیاس کی سلطنت نہیں مٹتی لاکھ دجلے بنا فرات بنا غم کا سورج وہ دے گیا تجھ کو چاہے اب دن بنا کہ رات بنا شعر اک مشغلہ تھا قاصرؔ کا اب یہی مقصد حیات بنا

    مزید پڑھیے

    آفاق میں پھیلے ہوئے منظر سے نکل کر

    آفاق میں پھیلے ہوئے منظر سے نکل کر چاہا تجھے موجود و میسر سے نکل کر دن سے بھی اٹھاتے نہیں ہم رات کے پردے خوابوں کے تعاقب میں ہیں بستر سے نکل کر دیوار کے سائے میں بھی اک شہر ہے آباد دیکھا ہی نہیں تو نے کبھی گھر سے نکل کر چشمے پہ جو پانی کے لیے ہاتھ بڑھاؤں چنگاریاں آ جاتی ہیں پتھر ...

    مزید پڑھیے

    کہیں لوگ تنہا کہیں گھر اکیلے

    کہیں لوگ تنہا کہیں گھر اکیلے کہاں تک میں دیکھوں یہ منظر اکیلے گلی میں ہواؤں کی سرگوشیاں ہیں گھروں میں مگر سب صنوبر اکیلے نمائش ہزاروں نگاہوں نے دیکھی مگر پھول پہلے سے بڑھ کر اکیلے اب اک تیر بھی ہو لیا ساتھ ورنہ پرندہ چلا تھا سفر پر اکیلے جو دیکھو تو اک لہر میں جا رہے ہیں جو ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے تو بے شمار بہانے بنائے ہیں

    ہم نے تو بے شمار بہانے بنائے ہیں کہتا ہے دل کہ بت بھی خدا نے بنائے ہیں لے لے کے تیرا نام ان آنکھوں نے رات بھر تسبیح انتظار کے دانے بنائے ہیں ہم نے تمہارے غم کو حقیقت بنا دیا تم نے ہمارے غم کے فسانے بنائے ہیں وہ لوگ مطمئن ہیں کہ پتھر ہیں ان کے پاس ہم خوش کہ ہم نے آئینہ خانے بنائے ...

    مزید پڑھیے

    رات اس کے سامنے میرے سوا بھی میں ہی تھا

    رات اس کے سامنے میرے سوا بھی میں ہی تھا سب سے پہلے میں گیا تھا دوسرا بھی میں ہی تھا میں مخالف سمت میں چلتا رہا ہوں عمر بھر اور جو اس تک گیا وہ راستہ بھی میں ہی تھا سب سے کٹ کر رہ گیا خود میں سمٹ کر رہ گیا سلسلہ ٹوٹا کہاں سے سوچتا بھی میں ہی تھا سب سے اچھا کہہ کے اس نے مجھ کو رخصت کر ...

    مزید پڑھیے

    ملنے کی ہر آس کے پیچھے ان دیکھی مجبوری تھی

    ملنے کی ہر آس کے پیچھے ان دیکھی مجبوری تھی راہ میں دشت نہیں پڑتا تھا چار گھروں کی دوری تھی جذبوں کا دم گھٹنے لگا ہے لفظوں کے انبار تلے پہلے نشاں زد کر لینا تھا جتنی بات ضروری تھی تیری شکل کے ایک ستارے نے پل بھر سرگوشی کی شاید ماہ و سال وفا کی بس اتنی مزدوری تھی پیار گیا تو کیسے ...

    مزید پڑھیے

    بن سے فصیل شہر تک کوئی سوار بھی نہیں

    بن سے فصیل شہر تک کوئی سوار بھی نہیں کس کو بٹھائیں تخت پر گرد و غبار بھی نہیں برگ و گل و طیور سب شاخوں کی سمت اڑ گئے قصر جہاں پناہ میں نقش و نگار بھی نہیں سایوں کی زد میں آ گئیں ساری غلام گردشیں اب تو کنیز کے لیے راہ فرار بھی نہیں میلے لباس کی دعا پہنچے شبیہ شاخ تک شاہوں کے پائیں ...

    مزید پڑھیے

    اپنے اشعار کو رسوا سر بازار کروں

    اپنے اشعار کو رسوا سر بازار کروں کیسے ممکن ہے کہ میں مدحت دربار کروں دل میں مقتول کی تصویر لیے پھرتا ہوں اور قاتل سے عقیدت کا بھی اظہار کروں یہی منشور محبت ہے کہ وہ پیکر ظلم جس کو نفرت سے نوازے میں اسے پیار کروں اب مرے شہر کی پہچان ہے اک وعدہ شکن شہریت بدلوں کہ تاریخ کا انکار ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ سے بچھڑے کاجل کو تحریر بنانے والے

    آنکھ سے بچھڑے کاجل کو تحریر بنانے والے مشکل میں پڑ جائیں گے تصویر بنانے والے یہ دیوانہ پن تو رہے گا دشت کے ساتھ سفر میں سائے میں سو جائیں گے زنجیر بنانے والے اس نے تو دیکھے ان دیکھے خواب سبھی لوٹائے اور تھے شاید ٹوٹی ہوئی تعبیر بنانے والے سونے کی دیوار سے آگے میرے کام نہ ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک پل کی اداسی کو جانتا ہے تو آ

    ہر ایک پل کی اداسی کو جانتا ہے تو آ مرے وجود کو تو دل سے مانتا ہے تو آ وفا کے شہر میں اب لوگ جھوٹ بولتے ہیں تو آ رہا ہے مگر سچ کو مانتا ہے تو آ مرے دیئے نے اندھیرے سے دوستی کر لی مجھے تو اپنے اجالے میں جانتا ہے تو آ حیات صرف ترے موتیوں کا نام نہیں دلوں کی بکھری ہوئی خاک چھانتا ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5