Ghulam Mohammad Qasir

غلام محمد قاصر

پاکستان کے مقبول اور ممتاز شاعر

Ghulam Muhammad Qasir is considered to be one of the finest modern poets from Pakistan.

غلام محمد قاصر کی غزل

    پھر وہی کہنے لگے تو مرے گھر آیا تھا

    پھر وہی کہنے لگے تو مرے گھر آیا تھا چاند جن چار گواہوں کو نظر آیا تھا رنگ پھولوں نے چنے آپ سے ملتے جلتے اور بتاتے بھی نہیں کون ادھر آیا تھا بوند بھی تشنہ ابابیل پہ نازل نہ ہوئی ورنہ بادل تو بلندی سے اتر آیا تھا تو نے دیکھا ہی نہیں ورنہ وفا کا مجرم اپنی آنکھیں تری دہلیز پہ دھر ...

    مزید پڑھیے

    بیاباں دور تک میں نے سجایا تھا

    بیاباں دور تک میں نے سجایا تھا مگر وہ شہر کے رستے سے آیا تھا دیئے کی آرزو کو جب بجھایا تھا پھر اس کے بعد آہٹ تھی نہ سایہ تھا اسے جب دیکھنے کے بعد دیکھا تو وہ خود بھی دل ہی دل میں مسکرایا تھا دل و دیوار تھے اک نام کی زد پر کہیں لکھا کہیں میں نے مٹایا تھا ہزاروں اس میں رہنے کے لیے ...

    مزید پڑھیے

    عکس کی صورت دکھا کر آپ کا ثانی مجھے

    عکس کی صورت دکھا کر آپ کا ثانی مجھے ساتھ اپنے لے گیا بہتا ہوا پانی مجھے میں بدن کو درد کے ملبوس پہناتا رہا روح تک پھیلی ہوئی ملتی ہے عریانی مجھے اس طرح قحط ہوا کی زد میں ہے میرا وجود آندھیاں پہچان لیتی ہیں بہ آسانی مجھے بڑھ گیا اس رت میں شاید نکہتوں کا اعتبار دن کے آنگن میں ...

    مزید پڑھیے

    نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے

    نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے ہم ایک شخص کا کتنا خیال رکھتے تھے جبیں پہ آنے نہ دیتے تھے اک شکن بھی کبھی اگرچہ دل میں ہزاروں ملال رکھتے تھے خوشی اسی کی ہمیشہ نظر میں رہتی تھی اور اپنی قوت غم بھی بحال رکھتے تھے بس اشتیاق تکلم میں بارہا ہم لوگ جواب دل میں زباں پر سوال رکھتے ...

    مزید پڑھیے

    بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو

    بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو ہر پتا نا آسودہ ہے ماحول چمن آلودہ ہے رہ جائیں لرزتی شاخوں پر دو چار گلاب تو اچھا ہو یوں شور کا دریا بپھرا ہے چڑیوں نے چہکنا چھوڑ دیا خطرے کے نشان سے نیچے اب اترے سیلاب تو اچھا ہو ہر ...

    مزید پڑھیے

    گلابوں کے نشیمن سے مرے محبوب کے سر تک

    گلابوں کے نشیمن سے مرے محبوب کے سر تک سفر لمبا تھا خوشبو کا مگر آ ہی گئی گھر تک وفا کی سلطنت اقلیم وعدہ سر زمین دل نظر کی زد میں ہے خوابوں سے تعبیروں کے کشور تک کہیں بھی سرنگوں ہوتا نہیں اخلاص کا پرچم جدائی کے جزیرے سے محبت کے سمندر تک محبت اے محبت ایک جذبے کی مسافت ہے مرے آوارہ ...

    مزید پڑھیے

    کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا

    کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا تصویر نہیں بدلی شیشہ بھی نہیں بدلا نظریں بھی سلامت ہیں چہرہ بھی نہیں بدلا ہے شوق سفر ایسا اک عمر سے یاروں نے منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلا بے کار گیا بن میں سونا مرا صدیوں کا اس شہر میں تو اب تک ...

    مزید پڑھیے

    ہجر کے تپتے موسم میں بھی دل ان سے وابستہ ہے

    ہجر کے تپتے موسم میں بھی دل ان سے وابستہ ہے اب تک یاد کا پتا پتا ڈالی سے پیوستہ ہے مدت گزری دور سے میں نے ایک سفینہ دیکھا تھا اب تک خواب میں آ کر شب بھر دریا مجھ کو ڈستا ہے شام ابد تک ٹکرانے کا اذن نہیں ہے دونوں کو چاند اسی پر گرم سفر ہے جو سورج کا رستہ ہے تیز نہیں گر آنچ بدن کی جم ...

    مزید پڑھیے

    کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں

    کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں ترے تکیے کے نیچے بھی ہمارے خواب رکھے ہیں مکاں تو سطح دریا پر بنائے ہیں حبابوں نے اثاثے گھر کے لیکن سب نے زیر آب رکھے ہیں یہ کنکر ان سے پہلے ہاتھ پر لہریں بنا لے گا ہماری راہ میں چاہت نے جو تالاب رکھے ہیں کناروں پر پہنچ کر تیرنے لگتی ہیں ...

    مزید پڑھیے

    سوتے ہیں وہ آئینہ لے کر خوابوں میں بال بناتے ہیں

    سوتے ہیں وہ آئینہ لے کر خوابوں میں بال بناتے ہیں سادہ سے پرندے کی خاطر کیا ریشمی جال بناتے ہیں امید کی سوکھتی شاخوں سے سارے پتے جھڑ جائیں گے اس خوف سے اپنی تصویریں ہم سال بہ سال بناتے ہیں زخموں کو چھپانے کی خاطر کپڑے ہی بدلنا چھوڑ دیا پوچھو تو سہی ہم کس کے لیے اپنا یہ حال بناتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5