Ghulam Mohammad Qasir

غلام محمد قاصر

پاکستان کے مقبول اور ممتاز شاعر

Ghulam Muhammad Qasir is considered to be one of the finest modern poets from Pakistan.

غلام محمد قاصر کی غزل

    محبت کی گواہی اپنے ہونے کی خبر لے جا

    محبت کی گواہی اپنے ہونے کی خبر لے جا جدھر وہ شخص رہتا ہے مجھے اے دل! ادھر لے جا سجی ہے بزم شبنم تو تبسم کام آئے گا تعارف پھول کا درپیش ہے تو چشم تر لے جا اندھیرے میں گیا وہ روشنی میں لوٹ آئے گا دیا جو دل میں جلتا ہے اسی کو بام پر لے جا اڑانوں آسمانوں آشیانوں کے لیے طائر! یہ پر ٹوٹے ...

    مزید پڑھیے

    پھر تو اس بے نام سفر میں کچھ بھی نہ اپنے پاس رہا

    پھر تو اس بے نام سفر میں کچھ بھی نہ اپنے پاس رہا تیری سمت چلا ہوں جب تک سمتوں کا احساس رہا تیری گلی میں ٹوٹ گئے سب جرم و سزا کے پیمانے ایک تبسم دیکھنے والا ساری عمر اداس رہا گلچیں کے چہرے کی رنگت روز بدلتی رہتی تھی رنج و خوشی کے ہر موسم میں پھول کا ایک لباس رہا جن کی درد بھری ...

    مزید پڑھیے

    لب پہ سرخی کی جگہ جو مسکراہٹ مل رہے ہیں

    لب پہ سرخی کی جگہ جو مسکراہٹ مل رہے ہیں حسرتوں کا بوجھ شانوں پر اٹھا کر چل رہے ہیں زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں کسی سے خوف و خواہش کے یہ پیکر نیند میں بھی چل رہے ہیں دل میں خیمہ زن اندھیرو کتنی جلدی میں ہے سورج جسم تک جاگے نہیں ہیں اور سائے ڈھل رہے ہیں میرے قصے میں اچانک ...

    مزید پڑھیے

    گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے

    گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے اک خواب نما بیداری میں جاتے ہوئے اس کو دیکھا تھا احساس کی لہروں میں اب تک حیرت کا سفینہ بہتا ہے پھر جسم کے منظر نامے میں سوئے ہوئے رنگ نہ جاگ اٹھیں اس خوف سے وہ پوشاک نہیں بس خواب ...

    مزید پڑھیے

    سینہ مدفن بن جاتا ہے جیتے جاگتے رازوں کا

    سینہ مدفن بن جاتا ہے جیتے جاگتے رازوں کا جانچنا زخموں کی گہرائی کام نہیں اندازوں کا ساری چابیاں میرے حوالے کیں اور اس نے اتنا کہا آٹھوں پہر حفاظت کرنا شہر ہے نو دروازوں کا سامنے کی آواز سے میرے ہر اک رابطے میں حائل دائیں بائیں پھیلا لشکر انجانی آوازوں کا آنکھیں آگے بڑھنا ...

    مزید پڑھیے

    سوئے ہوئے جذبوں کو جگانا ہی نہیں تھا

    سوئے ہوئے جذبوں کو جگانا ہی نہیں تھا اے دل وہ محبت کا زمانہ ہی نہیں تھا مہکے تھے چراغ اور دہک اٹھی تھیں کلیاں گو سب کو خبر تھی اسے آنا ہی نہیں تھا دیوار پہ وعدوں کی امر بیل چڑھا دی رخصت کے لیے اور بہانہ ہی نہیں تھا اڑتی ہوئی چنگاریاں سونے نہیں دیتیں روٹھے ہوئے اس خط کو جلانا ہی ...

    مزید پڑھیے

    کچھ بے ترتیب ستاروں کو پلکوں نے کیا تسخیر تو کیا

    کچھ بے ترتیب ستاروں کو پلکوں نے کیا تسخیر تو کیا وہ شخص نظر بھر رک نہ سکا احساس تھا دامن گیر تو کیا کچھ بنتے مٹتے دائرے سے اک شکل ہزاروں تصویریں سب نقش و نگار عروج پہ تھے آنکھیں تھیں زوال پذیر تو کیا خوش ہوں کہ کسی کی محفل میں ارزاں تھی متاع بیداری اب آنکھیں ہیں بے خواب تو کیا اب ...

    مزید پڑھیے

    شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے

    شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے خار چمن تھے شبنم شبنم پھول بھی سارے گیلے تھے شاخ سے ٹوٹ کے گرنے والے پتے پھر بھی پیلے تھے سرد ہواؤں سے تو تھے ساحل کے ریت کے یارانے لو کے تھپیڑے سہنے والے صحراؤں کے ٹیلے تھے تابندہ تاروں کا ...

    مزید پڑھیے

    خواب کہاں سے ٹوٹا ہے تعبیر سے پوچھتے ہیں

    خواب کہاں سے ٹوٹا ہے تعبیر سے پوچھتے ہیں قیدی سب کچھ بھول گیا زنجیر سے پوچھتے ہیں جام جم لایا ہے گھر گھر دنیا کے حالات دل کی باتیں ہم تیری تصویر سے پوچھتے ہیں دنیا کب کروٹ بدلے گی کب جاگیں گے شہر کیسی باتیں سوئے ہوئے ضمیر سے پوچھتے ہیں ہم سے نہ پوچھو کس جذبے نے تمہیں کیا ...

    مزید پڑھیے

    ذہن میں دائرے سے بناتا رہا دور ہی دور سے مسکراتا رہا

    ذہن میں دائرے سے بناتا رہا دور ہی دور سے مسکراتا رہا میں سمندر نہیں چاند کو علم ہے رات بھر پھر بھی مجھ کو بلاتا رہا آنکھ میں خیمہ زن نیلگوں وسعتیں اپنا پہلا قدم ہی خلاؤں میں ہے جو جفا کے جزیرہ نماؤں میں ہے دل کا اس خاک خستہ سے ناتا رہا کج ادائی کی چادر سے منہ ڈھانپ کر سونے والا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5