Ghulam Mohammad Qasir

غلام محمد قاصر

پاکستان کے مقبول اور ممتاز شاعر

Ghulam Muhammad Qasir is considered to be one of the finest modern poets from Pakistan.

غلام محمد قاصر کی غزل

    سب رنگ ناتمام ہوں ہلکا لباس ہو

    سب رنگ ناتمام ہوں ہلکا لباس ہو شفاف پانیوں پہ کنول کا لباس ہو اشکوں سے بن کے مرثیہ پہنا دیا گیا اب زندگی کے تن پہ غزل کا لباس ہو ہر ایک آدمی کو ملے خلعت بشر ہر ایک جھونپڑی پہ محل کا لباس ہو سن لے جو آنے والے زمانے کی آہٹیں کیسے کہے کہ آج بھی کل کا لباس ہو یا رب کسی صدی کے افق پر ...

    مزید پڑھیے

    یہ جہاں نورد کی داستاں یہ فسانہ ڈولتے سائے کا

    یہ جہاں نورد کی داستاں یہ فسانہ ڈولتے سائے کا مرے سر بریدہ خیال ہیں کہ دھواں ہے سونی سرائے کا وہ ہوا کا چپکے سے جھانکنا کسی بھولے بسرے مدار سے کہیں گھر میں شہر کی ظلمتیں کہیں چھت پہ چاند کرائے کا گل ماہ گھومتے چاک پر کف کوزہ گر سے پھسل گئی کہ بساط گردش سال و سن یہی فرق اپنے پرائے ...

    مزید پڑھیے

    رات کا ہر اک منظر رنجشوں سے بوجھل تھا

    رات کا ہر اک منظر رنجشوں سے بوجھل تھا چاند بھی ادھورا تھا میں بھی نامکمل تھا آنکھ کی منڈیروں پر آرزو نہیں لرزی اک چراغ کی لو سے اک چراغ اوجھل تھا جا ملا ترے در کے گم شدہ زمانوں میں میری عمر کا حاصل پیار کا جو اک پل تھا کیوں سلگتی آوازیں بھیگ بھیگ جاتی تھیں دشت نارسائی میں دھوپ ...

    مزید پڑھیے

    پھر وہ دریا ہے کناروں سے چھلکنے والا

    پھر وہ دریا ہے کناروں سے چھلکنے والا شہر میں کوئی نہیں آنکھ جھپکنے والا جس سے ہر شاخ پہ پھوٹی ترے آنے کی مہک آم کے پیڑ پہ وہ بور ہے پکنے والا یوں تو آنگن میں چراغوں کی فراوانی ہے بجھتا جاتا ہے وہ اک نام چمکنے والا پھر کہانی میں نشانی کی طرح چھوڑ گیا دل کی دہلیز پہ اک درد دھڑکنے ...

    مزید پڑھیے

    یوں تو صدائے زخم بڑی دور تک گئی

    یوں تو صدائے زخم بڑی دور تک گئی اک چارہ گر کے شہر میں جا کر بھٹک گئی خوشبو گرفت عکس میں لایا اور اس کے بعد میں دیکھتا رہا تری تصویر تھک گئی گل کو برہنہ دیکھ کے جھونکا نسیم کا جگنو بجھا رہا تھا کہ تتلی چمک گئی میں نے پڑھا تھا چاند کو انجیل کی طرح اور چاندنی صلیب پہ آ کر لٹک ...

    مزید پڑھیے

    اکیلا دن ہے کوئی اور نہ تنہا رات ہوتی ہے

    اکیلا دن ہے کوئی اور نہ تنہا رات ہوتی ہے میں جس پل سے گزرتا ہوں محبت ساتھ ہوتی ہے تری آواز کو اس شہر کی لہریں ترستی ہیں غلط نمبر ملاتا ہوں تو پہروں بات ہوتی ہے سروں پر خوف رسوائی کی چادر تان لیتے ہو تمہارے واسطے رنگوں کی جب برسات ہوتی ہے کہیں چڑیاں چہکتی ہیں کہیں کلیاں چٹکتی ...

    مزید پڑھیے

    خاموش تھے تم اور بولتا تھا بس ایک ستارہ آنکھوں میں

    خاموش تھے تم اور بولتا تھا بس ایک ستارہ آنکھوں میں میں کیسے نہ رکتا چلنے لگا جب سرخ اشارہ آنکھوں میں منظر میں کناروں سے باہر دریائے محبت بہتا ہے اور پس منظر میں نیلے سے آنچل کا کنارا آنکھوں میں ہر سال بہار سے پہلے میں پانی پر پھول بناتا ہوں پھر چاروں موسم لکھ جاتے ہیں نام ...

    مزید پڑھیے

    یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے

    یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے آ کہ ہر بات بھلا دی ہم نے گلشن دل سے گزرنے کے لیے غم کو رفتار صبا دی ہم نے اب اسی آگ میں جلتے ہیں جسے اپنے دامن سے ہوا دی ہم نے دن اندھیروں کی طلب میں گزرا رات کو شمع جلا دی ہم نے رہگزر بجتی ہے پائل کی طرح کس کی آہٹ کو صدا دی ہم نے قصر معنی کے مکیں تھے ...

    مزید پڑھیے

    وعدے یخ بستہ کمروں کے اندر گرتے ہیں

    وعدے یخ بستہ کمروں کے اندر گرتے ہیں میرے صحن میں جھلسے ہوئے کبوتر گرتے ہیں کہتے ہیں ان شاخوں پر پھل پھول بھی آتے تھے اب تو پتے جھڑتے ہیں یا پتھر گرتے ہیں خوں کے یہ دھارے ہم نے پہلی بار نہیں دیکھے لیکن اب ان دریاؤں میں سمندر گرتے ہیں سن لیتے ہیں سرگوشی کو چپ میں ڈھلتے ہوئے چن ...

    مزید پڑھیے

    وہ بے دلی میں کبھی ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں

    وہ بے دلی میں کبھی ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں تو ہم بھی سیر سماوات چھوڑ دیتے ہیں جب ان کے گرد کہانی طواف کرنے لگے تو درمیاں سے کوئی بات چھوڑ دیتے ہیں دعا کریں گے مگر اس مقام سے آگے تمام لفظ جہاں ساتھ چھوڑ دیتے ہیں دیئے ہوں اتنے کہ خوابوں کو راستہ نہ ملے تو شہر اپنی روایات چھوڑ دیتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5