رات کا ہر اک منظر رنجشوں سے بوجھل تھا

رات کا ہر اک منظر رنجشوں سے بوجھل تھا
چاند بھی ادھورا تھا میں بھی نامکمل تھا


آنکھ کی منڈیروں پر آرزو نہیں لرزی
اک چراغ کی لو سے اک چراغ اوجھل تھا


جا ملا ترے در کے گم شدہ زمانوں میں
میری عمر کا حاصل پیار کا جو اک پل تھا


کیوں سلگتی آوازیں بھیگ بھیگ جاتی تھیں
دشت نارسائی میں دھوپ تھی نہ بادل تھا


دور تو نہ تھا اتنا خیمہ اس کے خوابوں کا
راستے میں اپنی ہی خواہشوں کا جنگل تھا