Firoza Yasmeen

فیروزہ یاسمین

فیروزہ یاسمین کی غزل

    جل گیا آشیاں رہا کیا ہے

    جل گیا آشیاں رہا کیا ہے اب تماشا سا اے صبا کیا ہے ظلم کرنے کو وہ ہوئے پیدا مجھ کو غم کھانے کے سوا کیا ہے بھول بیٹھا ہے دل ہر اک شے کو جز تصور یہاں بچا کیا ہے چھیننا چاہتی ہے یادوں کو اس میں دنیا بھلا ترا کیا ہے دل نے انجان بن کے پوچھا ہے یاسمیںؔ تیرا مدعا کیا ہے

    مزید پڑھیے

    لب پہ ہر وقت یہ گلہ کیا ہے

    لب پہ ہر وقت یہ گلہ کیا ہے ایسے جینے میں پھر مزا کیا ہے سب محبت میں ہار بیٹھے ہیں دل کے جذبات میں رکھا کیا ہے شمع امید ہیں جلائے ہوئے ہم نہیں جانتے وفا کیا ہے جس نے ہم کو دیا ہے زخم دل پوچھتے ہیں وہی ہوا کیا ہے جانتے ہو جو یاسمیںؔ کی غرض پھر نہ پوچھو کہ مدعا کیا ہے

    مزید پڑھیے

    ان کا انداز بیاں اور اثر تو دیکھو

    ان کا انداز بیاں اور اثر تو دیکھو گفتگو کا یہ سلیقہ یہ ہنر تو دیکھو زخم پر مرہم امید رکھا ہے میں نے دیکھنے والو مرا زخم جگر تو دیکھو کہہ رہی ہے مرے کانوں میں گزرتی ہوئی شام یہ مرا حوصلہ یہ عزم سفر تو دیکھو آئے تو ہیں مرے نزدیک وہ تھوڑا سا مگر ان کا بیگانہ سا انداز نظر تو ...

    مزید پڑھیے

    ان کا وعدہ وفا نہیں ہوتا

    ان کا وعدہ وفا نہیں ہوتا دل کہ پھر بھی خفا نہیں ہوتا لاکھ توڑے زمانہ جور و ستم کس کا آخر خدا نہیں ہوتا ہم سجا لیتے خواب کے تنکے آشیاں گر جلا نہیں ہوتا ہم بھی راہ وفا سے ہٹتے اگر تم کو اپنا کہا نہیں ہوتا عشق ہوتا اگر نہ دنیا میں زندگی میں مزا نہیں ہوتا

    مزید پڑھیے