ان کا انداز بیاں اور اثر تو دیکھو
ان کا انداز بیاں اور اثر تو دیکھو
گفتگو کا یہ سلیقہ یہ ہنر تو دیکھو
زخم پر مرہم امید رکھا ہے میں نے
دیکھنے والو مرا زخم جگر تو دیکھو
کہہ رہی ہے مرے کانوں میں گزرتی ہوئی شام
یہ مرا حوصلہ یہ عزم سفر تو دیکھو
آئے تو ہیں مرے نزدیک وہ تھوڑا سا مگر
ان کا بیگانہ سا انداز نظر تو دیکھو
شب تاریک بھی لائی ہے اجالوں کے پیام
چھت پہ پھیلی ہوئی یہ اجلی سحر تو دیکھو
یاسمیںؔ چاند ستاروں سے کہا ہے میں نے
آؤ میرا حسیں بھوپال نگر تو دیکھو