جل گیا آشیاں رہا کیا ہے
جل گیا آشیاں رہا کیا ہے
اب تماشا سا اے صبا کیا ہے
ظلم کرنے کو وہ ہوئے پیدا
مجھ کو غم کھانے کے سوا کیا ہے
بھول بیٹھا ہے دل ہر اک شے کو
جز تصور یہاں بچا کیا ہے
چھیننا چاہتی ہے یادوں کو
اس میں دنیا بھلا ترا کیا ہے
دل نے انجان بن کے پوچھا ہے
یاسمیںؔ تیرا مدعا کیا ہے