Fauziya Farooqi

فوزیہ فاروقی

فوزیہ فاروقی کی نظم

    اپنا اپنا شہر

    ہمارے دلوں میں کچھ ڈوبتا جا رہا ہے میرے اور تمہارے وہ کیا ہے کیا ہم اس کے بھید پا سکتے ہیں کہرے کی سرد چادر نے جنگل کو اپنے سائے میں لے لیا ہے کوئی آواز نہیں صرف ایک گہری مہک کوئی میرے دل میں لوبان کی دھونی دیتا ہے اور آنکھیں جلنے لگتی ہیں ہم دھارے کے مقابل نہیں تیر سکتے اور دھارے ...

    مزید پڑھیے

    ہجر اور وصال

    ہوک اٹھتی ہے جلا دیتی ہے جسم و جاں کو دل لرز اٹھتا ہے آنکھوں سے دھواں اٹھتا ہے یہ دھواں ہجر کا تاریک دھواں پھیلتا جاتا ہے بھر دیتا ہے اس وادی کو جس کے ہر گوشے میں اک نقش منور تھا ابھی کوئی سایہ کوئی خوشبو سے مہکتا سایہ مجھ کو چھوتا تھا مرے دل میں اترتا تھا ابھی پیرہن میرا مہکتا ...

    مزید پڑھیے

    خطبۂ زینبؔ

    زمین اب دھماکوں سے چٹخنے لگی ہے اور آسمان سے ٹافیاں برس رہی ہیں چیختے چیختے میری آواز کھو گئی ٹیلی ویژن کے اس شور میں خطبۂ زینبؔ کون سنے مناجاتوں کا آہنگ نعروں کی ہولناکی میں تبدیل ہو گیا مجھے اپنی بے ردائی کا غم نہیں کہ میرے بچے اپنی جیبوں میں شعلے بھر رہے ہیں

    مزید پڑھیے

    زرد ذائقہ

    ہم عورتیں ایک دوسرے کی دشمن ہیں مگر سب نہیں تم ہم سب سے محبت کرتے ہو مگر ہمیشہ نہیں موسم کس قدر جلد بیت جاتے ہیں اور محبتیں اس سے بھی جلد اب یہ بھی گزرے زمانے کی بات ہے جب میرے چہرے کی رنگت اور تمہاری آنکھوں کے رنگ کے درمیان ایک بے نام رشتہ تھا اور میرا سراپا پس منظر کو معدوم کر ...

    مزید پڑھیے

    موت

    موت ہمارا پیچھا کرتی رہتی ہے اور اس کے کئی نام ہیں دھماکہ رفتار دانت کا درد ہمارے پناہ کے ٹھکانے بھی کئی ہیں ہم پناہ لیتے ہیں کافی کے ایک پیالے میں جب اس سے بھاپ اٹھ رہی ہو درخت کے سائے میں جب وہ درخت سے زیادہ طویل ہو تصویر کے جنگل میں جہاں رنگ کچھ دھندلا گیا ہو محبوب کے جسم ...

    مزید پڑھیے

    محبت کے بغیر ایک نظم

    میں سمندر کو چھانتی ہوں جب سورج بہت تیز چمکتا ہے سارا نمک بہہ جاتا ہے میرے پاس بچا رہتا ہے صرف پانی اور مجھے تیرنا نہیں آتا موسیقی کے شور کے درمیان رقص کے کسی خاموش وقفے میں تم میری طرف جھکتے ہو ایک سرخ بوسہ لیے میرے ہونٹوں پر تمہارا ذائقہ پھیل جاتا ہے اور تمہارا لمس کوک کے گلاس ...

    مزید پڑھیے

    چاند سیاہ پڑ چکا ہے

    بے شمار سورج آسمان میں روشن ہوتے ہیں اور زمین کے سینے سے دھواں اٹھنے لگتا ہے تیزی سے بڑھتے ہوئے قدموں کی آہٹ اور تیز ہوتی جاتی ہے اور کب معدوم ہو جاتی ہے پتا ہی نہیں چلتا اجالے نے ہم سے رنگوں کی شناخت چھین لی ہے ہماری گردنوں کی رگیں سوج گئی ہیں کہ نغمے اور نالے میں کوئی فرق باقی ...

    مزید پڑھیے