فاروق نازکی کی غزل

    جب بھی تم کو سوچا ہے

    جب بھی تم کو سوچا ہے سارا منظر بدلا ہے جاتے جاتے یہ کس نے نام پون پر لکھا ہے انگاروں کے موسم میں جسموں کا سا میلہ ہے میری بستی میں آ کر پاگل دریا ٹھہرا ہے خوشیاں ہیں مہمان مری غم میرا ہم سایا ہے تم کیا جانو کشمیری دلی میں کیا ہوتا ہے

    مزید پڑھیے

    اے مرکز خیال بکھرنے لگا ہوں میں

    اے مرکز خیال بکھرنے لگا ہوں میں اپنے تصورات سے ڈرنے لگا ہوں میں اس دوپہر کی دھوپ میں سایہ بھی کھو گیا تنہائیوں کے دل میں اترنے لگا ہوں میں برداشت کر نہ پاؤں گا وحشت کی رات کو اسے شام انتظار بپھرنے لگا ہوں میں اس تیرگی میں کرمک شب تاب بھی نہیں تاریکیوں کو روح میں بھرنے لگا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    مشورہ دینے کی کوشش تو کرو

    مشورہ دینے کی کوشش تو کرو میرے حق میں کوئی سازش تو کرو جب کسی محفل میں میرا ذکر ہو چپ رہو اتنی نوازش تو کرو میرا کہنا حرف آخر بھی نہیں میری مانو آزمائش تو کرو خود ستائی شیوۂ ابلیس ہے نذر حق حرف ستائش تو کرو چار سو ظلمت کے پہرے دار ہیں رحمتوں کی ہم پہ بارش تو کرو

    مزید پڑھیے

    پورے قد سے میں کھڑا ہوں سامنے آئے گا کیا

    پورے قد سے میں کھڑا ہوں سامنے آئے گا کیا میں ترا سایہ نہیں ہوں مجھ کو سمجھائے گا کیا آندھیوں پر اڑ رہا ہے جن پرندوں کا ہجوم آسماں کی وسعتوں سے لوٹ کر آئے گا کیا اک نئے منظر کا خاکہ آسماں پر کیوں نہیں چاند اپنی چاندنی پر یوں ہی اترائے گا کیا فصل گل کے بعد پت جھڑ یوں تو اک معمول ...

    مزید پڑھیے

    میں اک گاؤں کا شاعر ہوں

    میں اک گاؤں کا شاعر ہوں کھلی فضاؤں کا شاعر ہوں دھوپ میں کھیتی پر لہراؤں نرم ہواؤں کا شاعر ہوں میرے دم سے ہیں یہ موسم دھوپ اور چھاؤں کا شاعر ہوں صحرا صحرا نام ہے میرا میں دریاؤں کا شاعر ہوں سورج میرا رستہ روکے میں کہ گھٹاؤں کا شاعر ہوں بہروں کی بستی کا گاہک نا بیناؤں کا شاعر ...

    مزید پڑھیے

    بستی سے دور جا کے کوئی رو رہا ہے کیوں

    بستی سے دور جا کے کوئی رو رہا ہے کیوں اور پوچھتا ہے شہر ترا سو رہا ہے کیوں رسوائیوں کا ڈر ہے نہ پرشش کا خوف ہے دامن سے اپنے داغ وفا دھو رہا ہے کیوں کیا لذت گناہ سے دل آشنا نہیں شرمندہ میرے حال پہ تو ہو رہا ہے کیوں وہ ان کی دل فریب دل آرائیاں کہاں ماضی کے خوف زار میں اب کھو رہا ہے ...

    مزید پڑھیے

    میرے چہرے کی سیاہی کا پتا دے کوئی

    میرے چہرے کی سیاہی کا پتا دے کوئی آئنے میرے مقابل سے ہٹا دے کوئی دشت در دشت یہاں پھیل رہے ہیں سائے شہر گل ریز سے پھر مجھ کو صدا دے کوئی عالم یاس میں خوابوں میں اترنا تیرا جیسے بیمار کو جینے کی دعا دے کوئی مرگ انبوہ میں اب جشن کا پہلو بھی نہیں آسماں آخری منظر تو دکھا دے کوئی

    مزید پڑھیے

    تیری مرضی نہ دے ثبات مجھے

    تیری مرضی نہ دے ثبات مجھے بے یقینی سے دے نجات مجھے ان کی نظریں اٹھیں مری جانب یاد ہے پہلی واردات مجھے ہر بلا سے رہے گا تو محفوظ اس سفر میں جو رکھ لے ساتھ مجھے روز ملتا ہوں میکدے میں اسے خوب پہچانتی ہے رات مجھے میں تجھے جانتا ہوں ہرجائی کیوں بتاتا ہے اپنی ذات مجھے مجھ کو دیتی ...

    مزید پڑھیے

    گہری نیلی شام کا منظر لکھنا ہے

    گہری نیلی شام کا منظر لکھنا ہے تیری ہی زلفوں کا دفتر لکھنا ہے کئی دنوں سے بات نہیں کی اپنوں سے آج ضروری خط اپنے گھر لکھنا ہے شدت پر ہے ہرے بھرے پتوں کی پیاس صحرا صحرا خون سمندر لکھنا ہے پتھر پر ہم نام کسی کا لکھیں گے آئینے پر آذر آذر لکھنا ہے چہرہ روشن کھلے ہوئے صحرا کی ...

    مزید پڑھیے

    جوں ہی بام و در جاگے

    جوں ہی بام و در جاگے بستیوں میں گھر جاگے انجم و قمر جاگے آسمان پر جاگے آپ ہی کے پہلو میں رات رات بھر جاگے ایسا زلزلہ آیا نیند سے شجر جاگے رت جگے سے ڈرتے ہیں نازکیؔ مگر جاگے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3