فاروق نازکی کی غزل

    تہمت سیر چمن ہم پہ لگی کیا نہ ہوا

    تہمت سیر چمن ہم پہ لگی کیا نہ ہوا طبع آزاد میں زنجیر پڑی کیا نہ ہوا وہ الم دوست تھے ہم جن کی ہر اک موسم میں دیکھتے دیکھتے خوشیوں سے ٹھنی کیا نہ ہوا خواب تو خواب رہے نیند بھی آنے سے رہی گرد بیداریٔ شب منہ پہ ملی کیا نہ ہوا سینۂ برگ‌ گل تر پہ نظر تھی اپنی زندگی آگ کے سانچے میں ڈھلی ...

    مزید پڑھیے

    وہی میں ہوں وہی خالی مکاں ہے

    وہی میں ہوں وہی خالی مکاں ہے مرے کمرے میں پورا آسماں ہے دیار خواب و چشم دل فگاراں جزیرہ نیند کا کیوں درمیاں ہے سکوت مرگ طاری ہر شجر پر یہ کیسا موسم تیغ و سناں ہے چمن افسردہ گل مرجھا گئے ہیں خزاں کی زد پہ سارا گلستاں ہے بھلا دی آپ نے بھی وہ کہانی محبت جس کے دم سے جاوداں ہے

    مزید پڑھیے

    غم کی چادر اوڑھ کر سوئے تھے کیا

    غم کی چادر اوڑھ کر سوئے تھے کیا رات بھر میرے لئے روئے تھے کیا چادر عصمت کے دھبے آپ نے رات پی کر صبح دم دھوئے تھے کیا میں نے پوچھا ان سے اک سادہ سوال خار میری راہ میں بوئے تھے کیا ڈھونڈتے پھرتے ہو خود کو نازکیؔ انہی گلیوں میں کبھی کھوئے تھے کیا

    مزید پڑھیے

    عجیب رنگ سا چہروں پہ بے کسی کا ہے

    عجیب رنگ سا چہروں پہ بے کسی کا ہے چلو سنبھل کے یہ عالم روا روی کا ہے کبھی نہ بات زمانے نے دل لگا کے سنی یہی تو خاص سبب میری بے دلی کا ہے سنا ہے لوگ وہاں مجھ سے خار کھاتے ہیں فسانہ عام جہاں میری بے بسی کا ہے

    مزید پڑھیے

    یوں ہی کر لیتے ہیں اوقات بسر اپنا کیا

    یوں ہی کر لیتے ہیں اوقات بسر اپنا کیا اپنے ہی شہر میں ہیں شہر بدر اپنا کیا رات لمبی ہے چلو غیبت یاراں کر لیں شب کسی طور تو ہو جائے بسر اپنا کیا دوریاں فاصلے دشوار گزر گاہیں ہیں ہے یہی شرط سفر رخت سفر اپنا کیا تجھ سے اب اذن تکلم بھی اگر مل جائے لب ہلیں یا نہ ہلیں آنکھ ہو تر اپنا ...

    مزید پڑھیے

    پھر پہاڑوں سے اتر کر آئیں گے

    پھر پہاڑوں سے اتر کر آئیں گے راہ بھٹکے نوجواں گھر آئیں گے جن کی خاطر ہیں گھروں کے در کھلے صبح کے بن کر پیمبر آئیں گے پھر تلاطم خیز ہے دریائے خوں ہم تری تقدیر بن کر آئیں گے دوستو مت سیکھئے سچ بولنا سر پہ ہر جانب سے پتھر آئیں گے ہاتھیوں کی مد پہ ہے کعبہ مرا کب ابابیلوں کے لشکر ...

    مزید پڑھیے

    درد کی رات گزرتی ہے مگر آہستہ

    درد کی رات گزرتی ہے مگر آہستہ وصل کی دھوپ نکھرتی ہے مگر آہستہ آسماں دور نہیں ابر ذرا نیچے ہے روشنی یوں بھی بکھرتی ہے مگر آہستہ تم نے مانگی ہے دعا ٹھیک ہے خاموش رہو بات پتھر میں اترتی ہے مگر آہستہ تیری زلفوں سے اسے کیسے جدا کرتا میں زندگی یوں بھی سنورتی ہے مگر آہستہ

    مزید پڑھیے

    حصار جسم سے آگے نکل گیا ہوتا

    حصار جسم سے آگے نکل گیا ہوتا جنوں کی آگ میں دیوانہ جل گیا ہوتا حیات ایک سہی کائنات ایک سہی ہمارے عہد کا انساں بدل گیا ہوتا ہوا کے زور نے پتھر اڑا دئے ہوتے تمام شہر کو طوفاں نگل گیا ہوتا میں اپنی نیند کسی گھر میں کیسے بھول آتا وہ میرے خواب کے سانچے میں ڈھل گیا ہوتا نہ پوچھ کیسا ...

    مزید پڑھیے

    نئی باسی کوئی خبر دے دے

    نئی باسی کوئی خبر دے دے سچی جھوٹی کہ معتبر دے دے سنگ برسا دے میرے آنگن میں رہرووں کو گل و ثمر دے دے ہے فلک تک فصیل نار جحیم اے خدا اب تو ابر تر دے دے کامیابی مرا مقدر کر زور کے ساتھ مجھ کو زر دے دے تابناکی عطا ہو فرقت کو کاسۂ چشم میں گہر دے دے اب فقیری میں کوئی بات نہیں حشمت و ...

    مزید پڑھیے

    اپنی غزل کو خون کا سیلاب لے گیا

    اپنی غزل کو خون کا سیلاب لے گیا آنکھیں رہیں کھلی کی کھلی خواب لے گیا شب زندہ دار لوگ اندھیروں سے ڈر گئے صبح ازل سے کون تب و تاب لے گیا عریاں ہے میری لاش حقیقت کی دھوپ میں وہ اپنے ساتھ یادوں کا برفاب لے گیا آیا مرے قریب گل سیم تن کی طرح سارا سکون صورت سیماب لے گیا مجھ کو سپرد ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3