پورے قد سے میں کھڑا ہوں سامنے آئے گا کیا
پورے قد سے میں کھڑا ہوں سامنے آئے گا کیا
میں ترا سایہ نہیں ہوں مجھ کو سمجھائے گا کیا
آندھیوں پر اڑ رہا ہے جن پرندوں کا ہجوم
آسماں کی وسعتوں سے لوٹ کر آئے گا کیا
اک نئے منظر کا خاکہ آسماں پر کیوں نہیں
چاند اپنی چاندنی پر یوں ہی اترائے گا کیا
فصل گل کے بعد پت جھڑ یوں تو اک معمول ہے
خوف بن کر پھر در و دیوار پر چھائے گا کیا
جانب شہر غزالاں پھر چلی شام فراق
دشت کی بے خوابیوں کا راز داں آئے گا کیا
خون کی روتی سفیدی بے صدا سازوں کا شور
بے سر و پا گیت کوئی بے زباں گائے گا کیا
ہے غزل آزاد گویا بے در و دیوار گھر
ہم کو بھی اس صنف بے جا کا ہنر آئے گا کیا