پھر پہاڑوں سے اتر کر آئیں گے

پھر پہاڑوں سے اتر کر آئیں گے
راہ بھٹکے نوجواں گھر آئیں گے


جن کی خاطر ہیں گھروں کے در کھلے
صبح کے بن کر پیمبر آئیں گے


پھر تلاطم خیز ہے دریائے خوں
ہم تری تقدیر بن کر آئیں گے


دوستو مت سیکھئے سچ بولنا
سر پہ ہر جانب سے پتھر آئیں گے


ہاتھیوں کی مد پہ ہے کعبہ مرا
کب ابابیلوں کے لشکر آئیں گے