یوں ہی کر لیتے ہیں اوقات بسر اپنا کیا

یوں ہی کر لیتے ہیں اوقات بسر اپنا کیا
اپنے ہی شہر میں ہیں شہر بدر اپنا کیا


رات لمبی ہے چلو غیبت یاراں کر لیں
شب کسی طور تو ہو جائے بسر اپنا کیا


دوریاں فاصلے دشوار گزر گاہیں ہیں
ہے یہی شرط سفر رخت سفر اپنا کیا


تجھ سے اب اذن تکلم بھی اگر مل جائے
لب ہلیں یا نہ ہلیں آنکھ ہو تر اپنا کیا


جام پھر تازہ کرو رات بہت لمبی ہے
کچھ تو کرنا ہے میاں تا بہ سحر اپنا کیا