شہر
شہر آسودہ ذہنوں کی آماجگاہ ہے تو پھر صاحبو کیوں درختوں کو کٹوا دیا اور ان کی جگہ آج ہر سمت ویران خالی عمارات کے سلسلے ہیں فقط
شہر آسودہ ذہنوں کی آماجگاہ ہے تو پھر صاحبو کیوں درختوں کو کٹوا دیا اور ان کی جگہ آج ہر سمت ویران خالی عمارات کے سلسلے ہیں فقط
آئنوں کے بھرے سمندر میں اک انا جاگتا جزیرہ ہے اور جزیرے میں یوں کھڑا ہوں میں پانیوں میں بہ فیض عکس تمام ڈوبتا اور ابھرتا رہتا ہوں ٹوٹتا اور بکھرتا رہتا ہوں آئنوں کے بھرے سمندر میں
الف سے آدمی الف سے آم ہے دھوپ بے رنگ ہے درد بے نام ہے آنکھ کم کوش ہے آنکھ خاموش ہے دھوپ سے درد تک رنگ سے نام تک سبز آغاز سے سرخ انجام تک صید سے دام تک ایک آواز ہے سلسلہ سلسلہ ایک احساس ہے دائرہ دائرہ دائرہ دائرہ سلسلہ سلسلہ ایک تو قید ہے ایک میں قید ہوں ایک تو دام ہے ایک میں دام ...
سحر کے افق سے دیر تک بارش سنگ ہوتی رہی اور شیشے کے سارے مکاں ڈھیر ہو کے رہے دست و بازو کٹے پاؤں مجروح تھے ذہن میں کرچیاں کھب گئیں اب کے چہرے پہ آنکھیں نہیں زخم تھے کس طرح جاگتے کس لئے جاگتے دیر تک یونہی سوتے رہے لوگ کیا جانے کیا سوچ کر مطمئن ہو گئے لوگ خاموش تھے
جانے کب سے یونہی جسموں کے خرابوں میں آوارہ یہ لوگ چہرہ چہرہ گرد گرد دست و پا درماندگی جانے کب تک لوگ چلتے رہیں گے اپنے کاندھوں پر لئے ان دیکھا بوجھ
اپنی آنکھیں بند کر لیں اپنے ذہنوں کے دریچے بند کر لیں ہونٹ سی لیں ورنہ ہم سب زرد پیڑوں سے چپک پتوں پتوں کی طرح
رنگ، آواز، دھوپ، سایہ، حرف! عکس، اظہار، بے نوا، بربط آسماں، آندھیاں، اندھیرا، آنکھ سانس روکے کھڑی رہی دیوار
اے سبک سادہ نشاں، پانی کی لہر اے گل امکاں خبر موج ہوا میں زیاں احساس قطرہ قطرہ رات تو سفر، ساکت سمندر، دائرہ طائر لاہوت کا نغمہ عدم اک صلیب شاخ پہ آنکھیں سزا
میں۔۔۔! برف سے ڈھکی چٹان سے پھسل پھسل گیا (مچل گیا) میں لمحہ لمحہ اک جہنمی طلب میں مبتلا حد نگاہ دن کی کالی کھائی تک پھسل گیا آفتاب اپنی آگ کے حصار میں پگھل گیا دعا کا ہاتھ جل گیا
میں پہاڑوں سے اتر آیا تو مجھ پر یہ کھلا اب پلٹ جانے کی خواہش ہے فضول! سارے رستے بند ہیں شہر کی آنکھوں میں اک پیغام ہے میرے لئے