فاروق مضطر کی نظم

    کتبہ

    الججہنی، آشفتگی آمادگی رات بھر کالے سوالوں کے نگر میں گھوم پھر کر صبح اپنے آپ میں جو لوٹ آیا ایک بوسیدہ عمارت کا کوئی کتبہ ہے وہ اور اب یونہی اپنے آپ میں سمٹا ہوا رہتا ہے وہ

    مزید پڑھیے

    تعاقب

    شب و روز جانے مجھے کیوں یہ احساس ہے کوئی میرے تعاقب میں بڑھتا چلا آ رہا ہے میں خود ہی ان بھاری قدموں کی آواز کے بوجھ سے دب رہا ہوں کہ میں اپنے ہی دست و بازو میں اب لمحہ لمحہ سمٹنے لگا ہوں! میں اب خود ہی میں ذرہ ذرہ بکھرنے لگا ہوں! میں اب اپنی ہمسائیگی سے بھی ڈرنے لگا ہوں! میں شاید! ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2