فاروق مضطر کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    صلیب موجۂ آب و ہوا پہ لکھا ہوں

    صلیب موجۂ آب و ہوا پہ لکھا ہوں ازل سے تا بہ ابد حرف حرف بکھرا ہوں وجود وہم مرا ہم سفر رہا دن بھر فصیل شام سے دیکھا تو سایہ سایہ ہوں سمیٹ لیں گے کسی دن نگاہ موسم کی شجر شجر پہ ابھی اپنا نام لکھتا ہوں چہار سمت گھرا ہوں میں پانیوں میں یہاں مرا یہ کرب کہ اک ڈوبتا جزیرہ ہوں ہوا کے ...

    مزید پڑھیے

    ہر نئے موڑ دھوپ کا صحرا

    ہر نئے موڑ دھوپ کا صحرا کارواں ساز رہ گئے تنہا سایۂ شاخ گل سے نامانوس وہ کوئی پالتو کبوتر تھا وہ کوئی ریشمی لباس میں تھی میں کوئی پھول تھا جو مرجھایا چاندنی چار دن بہت سوئی پانچویں دن خمار ٹوٹ گیا مچھلیاں خود فریب ہوتی ہیں اک مچھیرے نہ تبصرہ لکھا واپسی اب گھروں میں نا ...

    مزید پڑھیے

    اپنی آنکھوں کے حصاروں سے نکل کر دیکھنا

    اپنی آنکھوں کے حصاروں سے نکل کر دیکھنا تو کسی دن اپنے نہ ہونے کا منظر دیکھنا اک عدم معلوم مدت سے میں تیری زد میں ہوں خود کو لمحہ بھر مرا قیدی بنا کر دیکھنا شام گہرے پانیوں میں ڈوب کر ایک بار پھر شہر کے موجود منظر کو پلٹ کر دیکھنا دیکھنا پچھلے پہر خوابوں کی اک اندھی قطار آسماں ...

    مزید پڑھیے

    شفق شب سے ابھرتا ہوا سورج سوچیں

    شفق شب سے ابھرتا ہوا سورج سوچیں برف کی تہہ سے کوئی چشمہ ابلتا دیکھیں روشنی دھوپ ہوا مل کے کیا سب نے نڈھال اب تمنا ہے کسی اندھے کنویں میں بھٹکیں جلتے بجھتے ہوئے اس شہر پہ کیا کچھ لکھا آج سب لکھا ہوا آنکھ پہ لا کر رکھ دیں جانے کیوں ڈوبتا رہتا ہوں میں اپنے اندر جانے کیوں سوجھتی ...

    مزید پڑھیے

    مگر ان آنکھوں میں کس صبح کے حوالے تھے

    مگر ان آنکھوں میں کس صبح کے حوالے تھے ہمارے نام کے سارے حروف کالے تھے یہ خاک و باد یہ ظلمات و نور و بحر و بر کتاب جاں میں یہ کس ذات کے حوالے تھے ہے رنگ رنگ مگر آفتاب آئینہ جبین شب پہ تو لکھے سوال کالے تھے مثال برق گری ایک آن تیغ ہوا ابھی دریچوں سے لوگوں نے سر نکالے تھے یہاں جو آج ...

    مزید پڑھیے

تمام

12 نظم (Nazm)

    شہر

    شہر آسودہ ذہنوں کی آماجگاہ ہے تو پھر صاحبو کیوں درختوں کو کٹوا دیا اور ان کی جگہ آج ہر سمت ویران خالی عمارات کے سلسلے ہیں فقط

    مزید پڑھیے

    نجات

    آئنوں کے بھرے سمندر میں اک انا جاگتا جزیرہ ہے اور جزیرے میں یوں کھڑا ہوں میں پانیوں میں بہ فیض عکس تمام ڈوبتا اور ابھرتا رہتا ہوں ٹوٹتا اور بکھرتا رہتا ہوں آئنوں کے بھرے سمندر میں

    مزید پڑھیے

    سبز آغاز سے سرخ انجام تک

    الف سے آدمی الف سے آم ہے دھوپ بے رنگ ہے درد بے نام ہے آنکھ کم کوش ہے آنکھ خاموش ہے دھوپ سے درد تک رنگ سے نام تک سبز آغاز سے سرخ انجام تک صید سے دام تک ایک آواز ہے سلسلہ سلسلہ ایک احساس ہے دائرہ دائرہ دائرہ دائرہ سلسلہ سلسلہ ایک تو قید ہے ایک میں قید ہوں ایک تو دام ہے ایک میں دام ...

    مزید پڑھیے

    سحر کے افق سے

    سحر کے افق سے دیر تک بارش سنگ ہوتی رہی اور شیشے کے سارے مکاں ڈھیر ہو کے رہے دست و بازو کٹے پاؤں مجروح تھے ذہن میں کرچیاں کھب گئیں اب کے چہرے پہ آنکھیں نہیں زخم تھے کس طرح جاگتے کس لئے جاگتے دیر تک یونہی سوتے رہے لوگ کیا جانے کیا سوچ کر مطمئن ہو گئے لوگ خاموش تھے

    مزید پڑھیے

    اندھا سفر

    جانے کب سے یونہی جسموں کے خرابوں میں آوارہ یہ لوگ چہرہ چہرہ گرد گرد دست و پا درماندگی جانے کب تک لوگ چلتے رہیں گے اپنے کاندھوں پر لئے ان دیکھا بوجھ

    مزید پڑھیے

تمام