Farigh Bukhari

فارغ بخاری

فارغ بخاری کے تمام مواد

36 غزل (Ghazal)

    چاندنی نے رات کا موسم جواں جیسے کیا

    چاندنی نے رات کا موسم جواں جیسے کیا ہم نے بھی چہرہ فروزاں شیشۂ مے سے کیا پاس خودداری تو ہے لیکن وفا دشمن نہیں تم نے ہم پر ترک الفت کا گماں کیسے کیا ہم گناہوں کی شریعت سے ہوئے جب آشنا جسم نے جو فیصلہ جیسے دیا ویسے کیا اس لیے اب ڈوبنے کے خوف سے ہیں بے نیاز ہم نے آغاز سفر دریاؤں کی ...

    مزید پڑھیے

    میں شعلۂ اظہار ہوں کوتاہ ہوں قد تک

    میں شعلۂ اظہار ہوں کوتاہ ہوں قد تک وسعت مری دیکھو تو ہے دیوار ابد تک ماحول میں سب گھولتے ہیں اپنی سیاہی رخ ایک ہی تصویر کے ہیں نیک سے بد تک کچھ فاصلے ایسے ہیں جو طے ہو نہیں سکتے جو لوگ کہ بھٹکے ہیں وہ بھٹکیں گے ابد تک کب تک کوئی کرتا پھرے کرنوں کی گدائی ظلمت کی کڑی دھوپ تو ڈستی ...

    مزید پڑھیے

    یادوں کا عجیب سلسلہ ہے

    یادوں کا عجیب سلسلہ ہے سویا ہوا درد جاگ اٹھا ہے مٹ بھی چکے نقش پا مگر دل مہکی ہوئی چاپ سن رہا ہے دیواریں کھڑی ہوئی ہیں لیکن اندر سے مکان گر رہا ہے پوچھے ہے چٹک کے غنچۂ زخم اے اجنبی تیرا نام کیا ہے کس شعلہ بدن کی یاد آئی دامان خیال جل اٹھا ہے سوچا ہے یہ میں نے پی کے اکثر نشے میں ...

    مزید پڑھیے

    اس اوج پر نہ اچھالو مجھے ہوا کر کے

    اس اوج پر نہ اچھالو مجھے ہوا کر کے کہ میں جہاں سے ہوں اترا خدا خدا کر کے ازل سے مجھ سے ہے وابستہ خیر و شر کا نظام نہ دیکھو مجھ کو مری ذات سے جدا کر کے میں جانتا ہوں مقفل ہیں سارے دروازے مجھے یہ ضد ہے کہ گزروں مگر صدا کر کے میں اپنے دور کے اس کرب کا ہوں آئینہ جو پیش رو ہوئے رخصت ...

    مزید پڑھیے

    کچھ نہیں گرچہ تری راہ گزر سے آگے

    کچھ نہیں گرچہ تری راہ گزر سے آگے دیکھنا کفر نہیں حد نظر سے آگے خود فریبی کے لیے گرم سفر ہیں ورنہ کیا ہے منزل کے سوا گرد سفر سے آگے میرا افلاک بھی تسکین نظر ہو نہ سکا تھے وہی شمس و قمر شمس و قمر سے آگے زندگی وقت کی دیواروں میں محبوس رہی کوئی پردہ نہ اٹھا شام و سحر سے آگے آج کے دور ...

    مزید پڑھیے

تمام

5 نظم (Nazm)

    خطرے کا نشان

    دائروں میں چلتے چلتے ہم کہاں تک آ گئے اونگھتے ہی اونگھتے خواب گراں تک آ گئے گہرے پانی میں اتر کر پار ہونے کے بجائے ڈرتے ڈرتے اب تو خطرے کے نشاں تک آ گئے

    مزید پڑھیے

    حرف نارسا

    کھلی کتاب کے حروف شرمگیں نگاہ سے دیکھتے ہیں یوں مجھے کہ جیسے یہ نئے پڑوسی جانے کب سے میری الجھنوں کے رازدار ہیں ہر ایک لفظ درد بن کے خلوتوں میں گونجتا ہے رات بھر یہ خط بھی اجنبی نہیں یہ حرف بھی نہیں کہ ان کی ہر نگہ میں ہر ادا میں بولتے بدن کی ہر صدا میں میرے انگ انگ کے لیے کرب کی ...

    مزید پڑھیے

    ادھورے خواب

    یہ غنیمت ہے کہ وہ خواب ادھورے ہی رہے وہ جو اک عمر تلک میری بے خواب نگاہوں کا اڑاتے تھے مذاق وہ جنہیں سادہ دلی سمجھی جنوں کا تریاک جو کبھی بام پہ چمکے کبھی در سے جھانکے کبھی روزن کبھی چلمن سے نمودار ہوئے جو کبھی زلف کا جادو تو کبھی شعلۂ رخسار ہوئے جو کبھی چشم فسوں کار ہوئے کھول کر ...

    مزید پڑھیے

    تعارف

    وہ زندگی کا عجیب و غریب موسم تھا بہاریں ٹوٹ پڑی تھیں سہانے جسموں پر نفس نفس میں فسوں تھا نظر نظر میں جنوں تصور مئے عصیاں سے چور چور بدن نجوم فکر و نظر ٹمٹما کے ڈوب گئے خمار ذہنوں پہ چھایا تو جسم جاگ اٹھے اندھیرا گہرا ہوا کائنات بہری ہوئی ابھر کے سایوں نے اک دوسرے کو پہچانا

    مزید پڑھیے

    اپنے دریا کی پیاس

    صداقتوں کے جنوں کا ہم ایسا آئینہ ہیں جو اپنے عکسوں کا مان کھو کر شکستگی کا عذاب سہنے میں مبتلا ہے ہم ایسے طوفاں کا ماجرا ہیں جو ٹوٹتے پھوٹتے چٹختے سے اپنے اعصاب کے بکھرنے کی آس میں ہیں جو تشنہ لب ساحلوں کی مانند اپنے دریا کی پیاس میں ہیں جو دشت امکان کی ہواؤں کی برگزیدہ مگر دریدہ ...

    مزید پڑھیے