حرف نارسا

کھلی کتاب کے حروف
شرمگیں نگاہ سے
دیکھتے ہیں یوں مجھے
کہ جیسے یہ نئے پڑوسی جانے کب سے
میری الجھنوں کے رازدار ہیں
ہر ایک لفظ درد بن کے خلوتوں میں گونجتا ہے رات بھر


یہ خط بھی اجنبی نہیں
یہ حرف بھی نہیں
کہ ان کی ہر نگہ میں ہر ادا میں
بولتے بدن کی ہر صدا میں
میرے انگ انگ کے لیے کرب کی پکار ہے
سماعتوں بصارتوں کی بے بسی کے باوجود
ان کی دکھ بھری فغاں بھی سن رہا ہوں
ان کے زخم دیکھتا ہوں
لیکن آہ
کس قدر عظیم ہے یہ المیہ
کہ میں انہیں پڑھوں تو نارسائی کا غبار
آنکھوں میں اتار دیں
تمام سعیٔ قرب
دوریوں کی زد پہ وار دیں
جنون شعلہ نمو کو زہر انتظار دیں