ادھورے خواب
یہ غنیمت ہے کہ وہ خواب ادھورے ہی رہے
وہ جو اک عمر تلک
میری بے خواب نگاہوں کا اڑاتے تھے مذاق
وہ جنہیں سادہ دلی سمجھی جنوں کا تریاک
جو کبھی بام پہ چمکے
کبھی در سے جھانکے
کبھی روزن کبھی چلمن سے نمودار ہوئے
جو کبھی زلف کا جادو
تو کبھی شعلۂ رخسار ہوئے
جو کبھی چشم فسوں کار ہوئے
کھول کر بند دریچے چمن آرائی کی
آرزو بنتے گئے جو غم تنہائی کی
یہ غنیمت ہے کہ وہ خواب ادھورے ہی رہے
مرگ تعبیر کا عنواں نہ بنے
ورنہ یہ تہمت رسوائی کہاں سے آتی
میرے فن میں یہ مسیحائی کہاں سے آتی