خطرے کا نشان
دائروں میں چلتے چلتے ہم کہاں تک آ گئے اونگھتے ہی اونگھتے خواب گراں تک آ گئے گہرے پانی میں اتر کر پار ہونے کے بجائے ڈرتے ڈرتے اب تو خطرے کے نشاں تک آ گئے
دائروں میں چلتے چلتے ہم کہاں تک آ گئے اونگھتے ہی اونگھتے خواب گراں تک آ گئے گہرے پانی میں اتر کر پار ہونے کے بجائے ڈرتے ڈرتے اب تو خطرے کے نشاں تک آ گئے
کھلی کتاب کے حروف شرمگیں نگاہ سے دیکھتے ہیں یوں مجھے کہ جیسے یہ نئے پڑوسی جانے کب سے میری الجھنوں کے رازدار ہیں ہر ایک لفظ درد بن کے خلوتوں میں گونجتا ہے رات بھر یہ خط بھی اجنبی نہیں یہ حرف بھی نہیں کہ ان کی ہر نگہ میں ہر ادا میں بولتے بدن کی ہر صدا میں میرے انگ انگ کے لیے کرب کی ...
یہ غنیمت ہے کہ وہ خواب ادھورے ہی رہے وہ جو اک عمر تلک میری بے خواب نگاہوں کا اڑاتے تھے مذاق وہ جنہیں سادہ دلی سمجھی جنوں کا تریاک جو کبھی بام پہ چمکے کبھی در سے جھانکے کبھی روزن کبھی چلمن سے نمودار ہوئے جو کبھی زلف کا جادو تو کبھی شعلۂ رخسار ہوئے جو کبھی چشم فسوں کار ہوئے کھول کر ...
وہ زندگی کا عجیب و غریب موسم تھا بہاریں ٹوٹ پڑی تھیں سہانے جسموں پر نفس نفس میں فسوں تھا نظر نظر میں جنوں تصور مئے عصیاں سے چور چور بدن نجوم فکر و نظر ٹمٹما کے ڈوب گئے خمار ذہنوں پہ چھایا تو جسم جاگ اٹھے اندھیرا گہرا ہوا کائنات بہری ہوئی ابھر کے سایوں نے اک دوسرے کو پہچانا
صداقتوں کے جنوں کا ہم ایسا آئینہ ہیں جو اپنے عکسوں کا مان کھو کر شکستگی کا عذاب سہنے میں مبتلا ہے ہم ایسے طوفاں کا ماجرا ہیں جو ٹوٹتے پھوٹتے چٹختے سے اپنے اعصاب کے بکھرنے کی آس میں ہیں جو تشنہ لب ساحلوں کی مانند اپنے دریا کی پیاس میں ہیں جو دشت امکان کی ہواؤں کی برگزیدہ مگر دریدہ ...