یادوں کا عجیب سلسلہ ہے

یادوں کا عجیب سلسلہ ہے
سویا ہوا درد جاگ اٹھا ہے


مٹ بھی چکے نقش پا مگر دل
مہکی ہوئی چاپ سن رہا ہے


دیواریں کھڑی ہوئی ہیں لیکن
اندر سے مکان گر رہا ہے


پوچھے ہے چٹک کے غنچۂ زخم
اے اجنبی تیرا نام کیا ہے


کس شعلہ بدن کی یاد آئی
دامان خیال جل اٹھا ہے


سوچا ہے یہ میں نے پی کے اکثر
نشے میں یہ روشنی سی کیا ہے


قاتل کو دعائیں دو کہ فارغؔ
ہر زخم وفا غزل سرا ہے