فرحت شہزاد کی غزل

    حیات کو تری دشوار کس طرح کرتا

    حیات کو تری دشوار کس طرح کرتا میں تجھ سے پیار کا اظہار کس طرح کرتا تھا میری صوت پہ پہرہ ''انا سپاہی'' کا میں اپنی ہار کا اقرار کس طرح کرتا اسے تھا پیار سے بڑھ کر خیال دنیا کا یہ جان کر بھی میں اصرار کس طرح کرتا ترا وجود گواہی ہے میرے ہونے کی میں اپنی ذات سے انکار کس طرح کرتا مجھے ...

    مزید پڑھیے

    دشت وحشت نے پھر پکارا ہے

    دشت وحشت نے پھر پکارا ہے زندگی آج تو گوارا ہے ڈوبنے سے بچا کے مانجھی نے درد کے گھاٹ لا اتارا ہے لاکھ تو مجھ سے ہے مگر مجھ میں کب تری ہم سری کا یارا ہے بات اپنی انا کی ہے ورنہ یوں تو دو ہاتھ پر کنارا ہے دل کی گنجان رہ گزاروں میں کرب تنہائی کا سہارا ہے لوگ مرتے ہیں بند آنکھوں ...

    مزید پڑھیے

    نیا اک زخم کھانا چاہتا ہوں

    نیا اک زخم کھانا چاہتا ہوں میں جینے کو بہانا چاہتا ہوں رلا دیتی ہے ہر سچی کہانی میں اک جھوٹا فسانہ چاہتا ہوں مہک سے جھوم اٹھے سارا جیون میں ایسا گل کھلانا چاہتا ہوں محبت میری بے حد خود غرض ہے تجھے سب سے چھپانا چاہتا ہوں یہ پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے میں سچ مچ مسکرانا چاہتا ...

    مزید پڑھیے

    نہیں ہے اب کوئی رستہ نہیں ہے

    نہیں ہے اب کوئی رستہ نہیں ہے کوئی جز آپ کے اپنا نہیں ہے ہر اک رستے کا پتھر پوچھتا ہے تجھے کیا کچھ بھی اب دکھتا نہیں ہے عجب ہے روشنی تاریکیوں سی کہ میں ہوں اور مرا سایہ نہیں ہے پرستش کی ہے میری دھڑکنوں نے تجھے میں نے فقط چاہا نہیں ہے میں شاید تیرے دکھ میں مر گیا ہوں کہ اب سینے ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنے زخم سینا آ گیا ہے

    خود اپنے زخم سینا آ گیا ہے بالآخر مجھ کو جینا آ گیا ہے منافق ہو گئے ہیں ہونٹ میرے مرے دل کو بھی کینہ آ گیا ہے بہا کر لے گیا طوفاں جوانی لب ساحل سفینہ آ گیا ہے کسی دکھ پر بھی آنکھیں نم نہ پا کر مصائب کو پسینہ آ گیا ہے بڑی استاد ہے یہ زندگی بھی لو مجھ کو زہر پینا آ گیا ہے لگا کر ...

    مزید پڑھیے

    نہیں ہے اب کوئی رستہ نہیں ہے

    نہیں ہے اب کوئی رستہ نہیں ہے کوئی جز آپ کے اپنا نہیں ہے ہر اک رستے کا پتھر پوچھتا ہے تجھے کیا کچھ بھی اب دکھتا نہیں ہے عجب ہے روشنی تاریکیوں سی کہ میں ہوں اور مرا سایا نہیں ہے پرستش کی ہے میری دھڑکنوں نے تجھے میں نے فقط چاہا نہیں ہے میں شاید تیرے دکھ میں مر گیا ہوں کہ اب سینے ...

    مزید پڑھیے

    دو جھکی آنکھوں کا پہنچا جب مرے دل کو سلام

    دو جھکی آنکھوں کا پہنچا جب مرے دل کو سلام یوں لگا ہے دوپہر میں جیسے در آئی ہو شام اس کے ہونٹوں کا کیا جب ذکر میرے شعر نے ہر سماعت کے لبوں سے جا لگا لبریز جام جیسے سجدے میں کوئی گر کر نہ اٹھے دیر تک یوں گری آنکھوں پہ پلکیں سن کے اک کافر کا نام دکھ کسی کا ہو اسے دھڑکن میں اپنی سینچ ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنے آپ سے برہم تھا وہ خفا مجھ سے

    میں اپنے آپ سے برہم تھا وہ خفا مجھ سے سکوں سے کیسے گزرتا یہ راستہ مجھ سے غزل سنا کے کبھی نظم گنگنا کے مری وہ کہہ رہا تھا مرے دل کا ماجرا مجھ سے گزر کے وقت نے گونگا بنا دیا تھا جنہیں وہ لفظ مانگ رہے ہیں نئی صدا مجھ سے نہ گل کی کوئی خبر ہے نہ بات گلشن کی خفا سی لگتی ہے کچھ روز سے صبا ...

    مزید پڑھیے

    اس بات کا کوئی رنج نہیں ہم اس کی توجہ پا نہ سکے

    اس بات کا کوئی رنج نہیں ہم اس کی توجہ پا نہ سکے افسوس ہمیں بس اتنا ہے ہم دل کا حال چھپا نہ سکے وہ اتنا اچھا ہے اس کو ہر کوئی اپنا کہتا ہے پر ہم کیوں اپنا سمجھے تھے یہ بات اسے سمجھا نہ سکے ہم آج سے پہلے زخموں پر ہنستی آنکھوں سے روتے تھے اس بار مگر دکھ ایسا ہے ہنسنا تو جدا مسکا نہ ...

    مزید پڑھیے

    ایک بس تو ہی نہیں مجھ سے خفا ہو بیٹھا

    ایک بس تو ہی نہیں مجھ سے خفا ہو بیٹھا میں نے جو سنگ تراشا تھا خدا ہو بیٹھا اٹھ کے منزل ہی اگر آئے تو شاید کچھ ہو شوق منزل تو مرا آبلہ پا ہو بیٹھا مصلحت چھین لی ہے قوت گفتار مگر کچھ نہ کہنا ہی مرا میری خطا ہو بیٹھا شکریہ اے مرے قاتل اے مسیحا میرے زہر جو تو نے دیا تھا وہ دوا ہو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2