اس بات کا کوئی رنج نہیں ہم اس کی توجہ پا نہ سکے
اس بات کا کوئی رنج نہیں ہم اس کی توجہ پا نہ سکے
افسوس ہمیں بس اتنا ہے ہم دل کا حال چھپا نہ سکے
وہ اتنا اچھا ہے اس کو ہر کوئی اپنا کہتا ہے
پر ہم کیوں اپنا سمجھے تھے یہ بات اسے سمجھا نہ سکے
ہم آج سے پہلے زخموں پر ہنستی آنکھوں سے روتے تھے
اس بار مگر دکھ ایسا ہے ہنسنا تو جدا مسکا نہ سکے
دو لفظ بیاں کر دیتے ہیں اک عمر کا اپنی افسانہ
وہ چھوڑ کے گلشن آ نہ سکا ہم چھوڑ کے صحرا جا نہ سکے
دل اک ضدی بچے کی طرح شہزادؔ سے بگڑا بیٹھا ہے
جز اک ناراض سے پتھر کے کوئی اور اسے بہلا نہ سکے