نیا اک زخم کھانا چاہتا ہوں

نیا اک زخم کھانا چاہتا ہوں
میں جینے کو بہانا چاہتا ہوں


رلا دیتی ہے ہر سچی کہانی
میں اک جھوٹا فسانہ چاہتا ہوں


مہک سے جھوم اٹھے سارا جیون
میں ایسا گل کھلانا چاہتا ہوں


محبت میری بے حد خود غرض ہے
تجھے سب سے چھپانا چاہتا ہوں


یہ پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے
میں سچ مچ مسکرانا چاہتا ہوں


بہت معصوم تھا وہ دور وحشت
میں پھر جنگل بسانا چاہتا ہوں


کھاؤ خواب یا لہراؤ ساغر
میں خود کو بھول جانا چاہتا ہوں


خدایا درد کو دے اور شدت
کہ میں اب ہار جانا چاہتا ہوں


وہ آ جائیں تو دل پر ہو نہ قابو
وہی قصہ پرانا چاہتا ہوں


مرے ہر دکھ کا کارن ہیں یہ آنکھیں
میں یہ دیپک بجھانا چاہتا ہوں


کوئی شہزاد کو مجھ پاس لائے
میں اس کا دکھ بٹانا چاہتا ہوں