خود اپنے زخم سینا آ گیا ہے
خود اپنے زخم سینا آ گیا ہے
بالآخر مجھ کو جینا آ گیا ہے
منافق ہو گئے ہیں ہونٹ میرے
مرے دل کو بھی کینہ آ گیا ہے
بہا کر لے گیا طوفاں جوانی
لب ساحل سفینہ آ گیا ہے
کسی دکھ پر بھی آنکھیں نم نہ پا کر
مصائب کو پسینہ آ گیا ہے
بڑی استاد ہے یہ زندگی بھی
لو مجھ کو زہر پینا آ گیا ہے
لگا کر زخم خود مرہم بھی دے گا
اسے اتنا قرینہ آ گیا ہے
ہرے ہونے چلے ہیں زخم سارے
کہ ساون کا مہینہ آ گیا ہے