Ejaz Farooqi

اعجاز فاروقی

اعجاز فاروقی کی نظم

    دھڑکنیں

    (1) موسم سرما کی ٹھٹھراتی ہوئی شام حزیں چوٹیوں پر برف کی اک لاش سارے پیڑ ننگے ٹنڈ منڈ صحن میں وہ چرمراتے بھورے پتوں کا کفن ایک سناٹا وہ اک ٹہنی تڑخ کر گر پڑی اک سانس ٹوٹا (۲) میں نے کل ہی اپنے بوڑھے باپ کے ٹھنڈے بدن کو غسل دے کے اپنے ہاتھوں کالی دھرتی کے دہانے میں اتارا کہ یہی ہے ...

    مزید پڑھیے

    ماں

    تیری تربت تیری آوازوں کا گنبد ایک وظیفہ جس سے گنبد کا پوشیدہ در کھل جاتا بھول گیا تھا اس کی خاطر جانے کتنے ویرانے اور کتنے بسیرے میں نے چھانے پر وہ مقدس پاؤں کی مٹی نہ مل سکی جس کو اس مورت پر ملتا تو تیری ہی آواز نکلتی تیری چاند سی آوازوں پر پتھر جیسا بادل برس برس کر گھل جاتا تو ...

    مزید پڑھیے

    تکمیل

    وہ تیرگی بھی عجیب تھی چاندنی کی ٹھنڈی گداز چادر سے سارا جنگل لپٹ رہا تھا گلوں کے صد رنگ دھندلے دھندلے سے جیسے اک سیم تن کے چہرے کے شوخ غازے پہ آنسوؤں کا غبار ہو پیڑ، منتظر اپنی نرم شاخوں کے ہاتھ پھیلائے اور کبھی کوئی شاخ چٹکی تو سائے نکلے ملوک پھولوں کو چوم کر چاندنی کی چادر پہ ...

    مزید پڑھیے

    اجنبی شہر

    وہ پیڑ اب کٹ گیا ہے جس کے تلے جوانی کے گرم لمحوں کو ٹھنڈے سائے ملے جو اک موڑ کا نشاں تھا جہاں سے ہم اک نئی جہت کو چلے تھے اب وہ نشان بھی مٹ گیا وہاں کولتار کی اک سڑک ہے جو گرمیوں میں پگھلی ہوئی سی رہتی ہے آدمی بھی پگھل رہا ہے وہاں پر اب موٹروں کا دریا سا بہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ...

    مزید پڑھیے

    تنہائی

    صبح کا ہنستا ستارہ تنہا کون جانے رات بھر کس کرب سے گزرا ہے ان گھنے پیڑوں سے لمبے تیز دانتوں والے عفریت نکل کر ٹیڑھی ٹانگوں بد نما پیروں سے کومل چاندنی کے فرش پر ناچے کھردرے ہاتھوں سے پھولوں کے جگر چاک کئے اپنی نظروں کی سیاہی سے نکھرتے ہوئے رنگوں کے چراغوں کو بجھایا اپنے نفرت ...

    مزید پڑھیے

    سنگ میل

    وہ ایک پتھر وہ سخت کالا سیاہ پتھر لہو سے تر جس کی تیرگی ناگ بن کے ڈستی تھی جس کی سختی سے کوہساروں کے دل دہلتے تھے جس کی خوں تشنگی سے کومل شجر فقط ٹہنیوں کی حسرت کے زاویے تھے وہ ایک پتھر جو تو نے پھینکا مرے سمندر میں حرکت لا زوال کا ایک تازیانہ بنا وہ لہریں اٹھیں کہ خاموش چاندنی کی ...

    مزید پڑھیے

    سروش

    یہ سمندر موج در موج سلاسل ہلکے گہرے سبز نیلے رنگ جن پر جا بہ جا چاندی کے دھبے اس کنارے پر گلابی رنگ میں ڈوبا ہوا اک گول چہرہ پھیلتے پانی میں اپنے آتشیں ہونٹوں کی سرخی گھولتا جائے میں اک سونے کی کشتی میں سوار ان حسیں رنگوں میں مدہوش اس کنارے کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہوں دور سطح آب پر ...

    مزید پڑھیے

    عورت

    تو نے میرے دکھ کی خاطر کتنے رنج سہے اپنی گود میں تو نے مجھ کو اپنے لہو کی چاندنی بخشی میں اک چاند بنا جس نے دھرتی سے یہ گھور بھیانک اندھیاروں کا خوف مٹایا جب تو زینت ھجلہ بنی تو نے اپنے خون کی آتش مجھ کو بخشی میں اک سورج بن کر چمکا جس کی دھوپ میں میری روح کا قیدی شاہیں ناگ کے پھندے ...

    مزید پڑھیے

    وقت

    یہ ننھی سی گڑیا جسے دو برس ہو گئے ہیں میں جاپان سے لے کر آیا یہ رقاصہ رنگین کپڑوں میں ملبوس اسی ایک انداز سے دو برس سے کھڑی ہے نہ پلو ہی سرکا نہ ہاتھوں سے رومال رنگیں ہی چھوٹا نہ سر سے یہ تاج سرفرازی و کج کلاہی ہٹا اس کا ویسا ہی معصوم چہرہ وہی زیر لب مسکراہٹ وہی قوس ابرو وہی چشم ...

    مزید پڑھیے

    وصل

    سحر کے وقت کنواری زمین شبنم میں نہا کے لیٹی ہے وہ سبز چادر گل تاب عارض مہتاب خمار خواب کا عالم وہ انتظار کا عالم کہ دور دیس سے جیسے کبھی تو آئے گا وہ دور دیس سے سورج کا دیوتا آیا اور اپنی تیز نگاہوں سے گدگدی کرتا وہ جوف الارض کے نصف النہار پر پہنچا زمیں پہ خوف کی اک زرد لہر سی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3