ماں
تیری تربت
تیری آوازوں کا گنبد
ایک وظیفہ
جس سے گنبد کا پوشیدہ در کھل جاتا
بھول گیا تھا
اس کی خاطر جانے کتنے ویرانے اور کتنے بسیرے میں نے چھانے
پر وہ مقدس پاؤں کی مٹی نہ مل سکی
جس کو اس مورت پر ملتا
تو تیری ہی آواز نکلتی
تیری چاند سی آوازوں پر
پتھر جیسا بادل
برس برس کر گھل جاتا
تو چاندنی میرے بھیتر کی بھسمانے والی آگ بجھاتی
میرا جسم بھی
تیری آوازوں کا مرقد
اندر اک طوفان تھا
آوازوں کے شعلے چٹخ رہے تھے
باہر
ہو کا عالم
تیری آوازوں میں رنگ تھے
میٹھے ٹھنڈے اور رسیلے
میری آوازوں میں چیخیں
تیری آوازوں کے رنگ میں جنگل جنگل ڈھونڈ رہا تھا
آنکھ اٹھا کر دیکھا
تو تیری ہی آوازوں کے رنگ ہیں
جو آکاش پہ بکھرے پڑے ہیں