Ejaz Farooqi

اعجاز فاروقی

اعجاز فاروقی کی نظم

    باپ

    وہ ایک پل تھا مرے اور اجداد کے زمانوں کا نقطۂ اتصال اس کی گزر گاہوں سے روایتوں اور حکایتوں کے ہزارہا قافلے نکل کر نئے زمانے کی یورشوں سے مری بکھرتی انا میں الفت یقین اور اعتماد کے رنگ بھر گئے ہیں وہ ایک پل آج ٹوٹ کر گہری گھاٹیوں میں گرا ہے اب میں کھڑا ہوں ان گہری گھاٹیوں پر میں ...

    مزید پڑھیے

    چپ

    تو نے سرد ہواؤں کی زباں سیکھی ہے تیرے ٹھنڈے لمس سے دھڑکنیں یخ بستہ ہوئیں اور میں چپ ہوں میں نے وقت صبح چڑیوں کی سریلی چہچہاہٹ کو سنا ہے اور میرے ذہن کے ساگر میں نغمے بلبلے بن کر اٹھے ہیں تیرے کڑوے بول سے ہر سو ہیں آوازوں کے لاشے اور میں چپ ہوں میں نے وہ معصوم پیارے گل بدن دیکھے ...

    مزید پڑھیے

    کتبہ

    کل جو قبرستان سے لوٹا تو تنہائی کا اک بوجھ اٹھا کر لایا ایسے لگتا تھا کہ میں بجھتا دیا ہوں اور سب لوگ تماشائی ہیں منتظر ہیں کہ مرے بجھنے کا منظر دیکھیں ایسے لگتا تھا کہ ہر گام پر کھلتے دہانے ہیں مرے جسم کو آغوش میں لینے کے لیے زندگی دور کھڑی ہنستی رہی قہقہوں کا اک سمندر میری جانب ...

    مزید پڑھیے

    نظر

    نظر نظر کا فریب ہر سو اٹھے تو صحرا پہ پھیل جائے جھکے تو اک گہری جھیل بادل صفت یہ برکھا کی ایک رم جھم جو پیار ہو تو یہ چاندنی ہے نظر نظر کا فریب لیکن نظر حقیقت نظر جھپکنے میں تخت بلقیس سامنے ہو نظر کے جادو سے جسم پتھر نظر کے پر تاب نور سے کوہ طور سینا بھی ریزہ ریزہ نظر نظر کا ...

    مزید پڑھیے

    آنسو

    وہ ایک آنسو گرا وہ دل کے اتھاہ ساگر میں اک صدف کا بھی منہ کھلا وہ آسمانوں کا سرمئی رنگ اس کے آنسو میں گھل کے رخسار کے شفق پر بہا کہیں دور جا کے دھرتی کے گہرے پاتال میں گرا ہزاروں آکاش رنگ آنسو ہوا کے تیز اور تند جھونکوں میں منتشر ہو گئے سمندر کی کوہ جیسی مہیب موجوں کے اندھے غاروں ...

    مزید پڑھیے

    لمحہ

    یہی ایک لمحہ ہے جب میرے پاؤں زمیں پر ہیں میرا وجود ایک سوندھی سی خوشبو لیے ہے یہی ایک لمحہ کہ میں ہوں یہی ایک لمحہ کہ تو ہے ترا خون سیال آتش ترے جسم کو ایک مٹی کے تاریک پتلے کو لو دے رہا ہے یہی ایک لمحہ ہے تخلیق تکرار تخلیق ورنہ بجھ جائے گی تیری آتش نکل جائے گی میری خوشبو

    مزید پڑھیے

    تہذیب

    یہ آبا کی اقدار کا اک مرقع جسے وقت کی ایک یلغار پیہم مٹاتی رہی اور مرے جد و اب اس میں بد زیب سے رنگ بھرتے رہے اب یہ بد زیب بد رنگ نقشوں کی بھونڈی سی تصویر مجھ کو ملی ہے مجھے یہ سکھایا گیا ہے اسے اپنی آنکھوں پہ رکھوں یہی زینت حجلۂ زیست ہوگی مرے پیڑ کو ابر کی ننھی ننھی پھواروں نے ...

    مزید پڑھیے

    لفظ

    لفظ تقدیر مری حسن بھی لفظ میں ہے عشق بھی لفظ میں ہے عدل بھی لفظ میں ہے لفظ میں ساز ازل لفظ میں راز ابد لفظ معمورۂ خوشبو لفظ اک قوس قزح لفظ بادل کا خرام لفظ دریا کی روانی لفظ میں رفعت کوہ لفظ میں وسعت صحرا لفظ مٹی کا نمو لفظ میں چاند کا محور لفظ میں مطلع خورشید درخشاں لفظ نیرنگی ...

    مزید پڑھیے

    سفر

    یہ آگ پانی ہوا یہ مٹی انہیں سے میرا خمیر اٹھا انہیں میں تحلیل ہو نہ جاؤں یہ آگ جو نور کا لہو ہے جو میری رگ رگ میں موجزن ہے اسی کی لو میں یہ میں نے دیکھا مجھے پہاڑوں کی چوٹیوں سے بلند تر نور کی پر اسرار سی اک انگلی بلا رہی تھی میں اپنے بوجھل کثیف کپڑوں کو خون کی آگ میں جلا کر ہوا کے ...

    مزید پڑھیے

    میں

    میرا جسم یہ نیلا گہرا پھیلتا پانی اس کی لہر لہر سے ابھرا میرے لہو کا چاند اس کے اندر پھوٹے تیرے جسم سے نرم کنول اس کے افق سے نکلا چمکا میرا سوچ کا سورج کون کہے میں خاکی ہوں مٹی تو بوجھل بیٹھ گئی تو بیٹھ گئی میں پانی کا سنگیت میں بہتا دریا لہو کا چاند کنول کا جھولا سوچ کا سورج کیسے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3