سنگ میل

وہ ایک پتھر
وہ سخت کالا سیاہ پتھر
لہو سے تر
جس کی تیرگی ناگ بن کے ڈستی تھی
جس کی سختی سے کوہساروں کے دل دہلتے تھے
جس کی خوں تشنگی سے کومل شجر فقط ٹہنیوں کی حسرت کے زاویے تھے
وہ ایک پتھر
جو تو نے پھینکا
مرے سمندر میں حرکت لا زوال کا ایک تازیانہ بنا
وہ لہریں اٹھیں
کہ خاموش چاندنی کی روپہلی چادر بھی تھرتھرائی
وہ جھاگ کا نور تیرگی کے سیاہ پردوں کو چاک کرنے لگا
وہ شیشے کی ایک دیوار
جس کو تو یہ سمجھ رہا تھا
کہ ایک ٹھوکر سے چور ہوگی
وہ ایک سونے کا تھال بن کر دمک رہی ہے