وصل

سحر کے وقت
کنواری زمین شبنم میں نہا کے لیٹی ہے
وہ سبز چادر گل تاب
عارض مہتاب
خمار خواب کا عالم
وہ انتظار کا عالم
کہ دور دیس سے جیسے
کبھی تو آئے گا
وہ دور دیس سے سورج کا دیوتا آیا
اور اپنی تیز نگاہوں سے گدگدی کرتا
وہ جوف الارض کے نصف النہار پر پہنچا
زمیں پہ خوف کی اک زرد لہر سی پھیلی
مگر وہ سبز سا جادو کنواری دلہن کا
فضا پہ چھا ہی گیا اک خمار کا عالم
اتر گیا ہرے شیشے میں دیوتا آخر


وہ شام لمس دھندلکا
لبوں کا رنگ لبوں میں گھلا
حسین تھا منظر
لذیذ تھا لمحہ
ہوا کی انگڑائی


اور اس کے بعد بھیانک ہوا کے زناٹے