اجنبی شہر
وہ پیڑ اب کٹ گیا ہے
جس کے تلے جوانی کے گرم لمحوں کو ٹھنڈے سائے ملے
جو اک موڑ کا نشاں تھا
جہاں سے ہم اک نئی جہت کو چلے تھے
اب وہ نشان بھی مٹ گیا
وہاں کولتار کی اک سڑک ہے
جو گرمیوں میں پگھلی ہوئی سی رہتی ہے
آدمی بھی پگھل رہا ہے
وہاں پر اب موٹروں کا دریا سا بہہ رہا ہے
اور ان کے پیچھے دھوئیں کے پردے پڑے ہیں
کوئی نہ ان کو پہچان پائے
اک شور ہارنوں کا بپا ہے
کوئی نہ سن سکے چہچہے پرندوں کے
ابتری ہے
مگر میں اک چاپ سن رہا ہوں
وہ چاپ جیسے کوئی بہت دور جا چکا ہے