Ejaz Farooqi

اعجاز فاروقی

اعجاز فاروقی کی نظم

    یادیں

    یادیں ناگن ڈس جائیں تو جیون رس میں زہر ملے شاخیں سوکھ کے کانٹا ہوں موت کا سایہ گہرا ہو یادیں کلیاں کھل جائیں تو صحرا صحرا مہک اٹھے ٹہنی ٹہنی پتا پتا امرت رس ٹپکائے جیون کا اجیالا ہو تیری آنکھیں ناگن جیسی تیرے ہونٹ ہیں کلیاں ایک میں موت کا گہرا سایہ ایک میں رس جیون کا

    مزید پڑھیے

    حقیقت سے پرے

    یہ کائنات ایک آئنہ ہے یہ صاف پانی کی جھیل جس میں میں ڈوب کر حیرت و تحیر بنا سراپا جو لوٹتا ہوں تو زندگی ہے نہ موت ہے اک سرور ہوں بے خودی ہوں سچائی ہوں مجسم

    مزید پڑھیے

    ہوا

    ہوا کے یہ نقش نیلے ساگر کی اٹھتی موجیں لہکتے پیڑوں کی نرم شاخیں گلوں کے کھلتے مہکتے لب کوہسار کی چوٹیوں پہ یہ برف کے دئے آبشار کا نغمۂ دل نشیں آسماں کے دامن میں بادلوں کے رواں دواں نرم نرم گالے وہ کوک کوئل کی وہ پپیہے کی پی یہ سب نقش ہیں ہوا کے یہ جسم بھی نقش ہے ہوا کا مگر کہاں ہے ...

    مزید پڑھیے

    اپنا اپنا رنگ

    تو ہے اک تانبے کا تھال جو سورج کی گرمی میں سارا سال تپے کوئی ہلکا نیلا بادل جب اس پر بوندیں برسائے ایک چھناکا ہو اور بوندیں بادل کو اڑ جائیں تانبا جلتا رہے وہ ہے اک بجلی کا تار جس کے اندر تیز اور آتش ناک اک برقی رو دوڑے جو بھی اس کے پاس سے گزرے اس کی جانب کھینچتا جائے اس کے ساتھ چمٹ ...

    مزید پڑھیے

    خواب کا رقص

    کیوں مرے خواب کو دھندلاتے ہو خواب انگڑائی ہے تھرتھراتے ہوئے پاؤں بیتی آوازوں کی لہریں اور بل کھاتا ہوا سیمیں بدن جس کے اک اک انگ میں میرے لہو کی دھڑکن آسمانوں کی طرف اٹھتے ہوئے وہ مرمریں بازو کسی شاہین کی پرواز اور ہاتھوں کی پوروں سے شعاعوں کی پھوار خواب کو انگڑائیوں کی ایک بل ...

    مزید پڑھیے

    گیان

    یہ چٹئیل سرزمیں تم کو ملی تو تم نے بے برگ و گیاہ ٹیلے پر اک معبد بنا ڈالا اور اس میں ایک بت رکھا جسے تم نے تراشا آدمی کے استخواں سے جس کے چرنوں میں چڑھاوا لائے تم تو اپنے بھائی کا اور اس کے ہونٹ اب تک خون کی لالی سے رنگیں ہیں زباں اب تک لہو کے ذائقے سے تر ہے لاؤ اور نذرانہ کہ یہ معبد ...

    مزید پڑھیے

    حرف

    وادی وادی صحرا صحرا پھرتا رہا میں دیوانہ کوہ ملا تو دریا بن کر اس کا سینہ چیر کے گزرا صحراؤں کی تند ہواؤں میں لالہ بن کر جلتا رہا دھرتی کی آغوش ملی تو پودا بن کر پھوٹا جب آکاش سے نظریں ملیں تو طائر بن کے اڑا غاروں کے اندھیاروں میں میں چاند بنا اور آکاش پہ سورج بن کر چمکا پھر بھی ...

    مزید پڑھیے

    ایک احساس

    اجاڑ سڑکوں کی دونوں جانب گھنے درختوں کے لمبے سائے تلے زمانے کی دھوپ سے تپتے دن گزارے گھنیری زلفوں کی ٹھنڈی چھاؤں تلے جوانی کی گرم جلتی دوپہریں کاٹیں گھنے درختوں کا سایہ قائم گھنیری زلفوں کی چھاؤں دائم مگر مرے سر سے ڈھل چکی ہے

    مزید پڑھیے

    احیا

    عصائے موسیٰ اندھیری راتوں کی ایک تجسیم منجمد جس میں حال اک نقطۂ سکونی نہ کوئی حرکت نہ کوئی رفتار جب آسمانوں سے آگ برسی تو برف پگھلی دھواں سا نکلا عصا میں حرکت ہوئی تو محبوس ناگ نکلا وہ ایک سیال لمحہ جو منجمد پڑا تھا بڑھا جھپٹ کر خزاں رسیدہ شجر کی سب خشک ٹہنیوں کو نگل گیا

    مزید پڑھیے

    پانی

    پانی پانی ہر سو پانی پانی بے ہیئت بے صورت ساغر میں ساغر بن جائے پھولوں پر یہ شبنم آنکھوں میں یہ آنسو اڑ جائے تو بادل بہہ جائے تو دریا پھیلے تو اک ساگر پانی بے ہیئت بے صورت پانی دیوتاؤں کا ایک مقدس رس ہے زیست کا بہتا دھارا چاندی کی کشتی کا جھولا میں بھی پانی ندی بن کر بہتا جاؤں سخت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3