ہوا
ہوا کے یہ نقش
نیلے ساگر کی اٹھتی موجیں
لہکتے پیڑوں کی نرم شاخیں
گلوں کے کھلتے مہکتے لب
کوہسار کی چوٹیوں پہ یہ برف کے دئے
آبشار کا نغمۂ دل نشیں
آسماں کے دامن میں بادلوں کے رواں دواں نرم نرم گالے
وہ کوک کوئل کی
وہ پپیہے کی پی
یہ سب نقش ہیں ہوا کے
یہ جسم بھی نقش ہے ہوا کا
مگر کہاں ہے ہوا
جو پھر مجھ کو نقش سے نقش گر بنا دے