ہوا سے بات کرو
ہوا سے بات کرو
کہو کہ اس کی لگائی ہوئی گرہ نہ کھلی
وہ دھول تھم نہ سکی دل کے رخ جو اڑتی تھی
وہ گرد اٹھی نہیں جو آئنوں پہ بیٹھی تھی
صبا سے بات کرو
صبا سے بات کرو کیا سوال تھا اس کا
وصال جس کا تعین نہ تھا جدائی سے
کسے پکار گیا
صدا سے بات کرو
یہی کہ جن کو سر دشت و بر پکارا گیا
وہ سر کشیدہ قبائل کی سر پھری اولاد
کس زمیں میں کھپی
کس فلک کا رزق ہوئی
قضا سے بات کرو
قضا سے بات مگر کیا
کہ ہر قبیلۂ درد
اک ایسے جبر ازل یاب کا حوالہ ہے
جو پہلے دن کی گواہی سند میں لاتا ہے
اگر جواب سے پھر اک سوال بنتا ہے
فنا کے واسطے کیوں باب حرف باز رہے
بہا جہان کی لا ہے تو لا سے بات کرو
ابتدا سے بات کرو