بے تعبیر

بچپنے کی دنیا تھی
جس کے دم سے دم لیتی
خوف کی پچھل پائی
خواب جس کی زد میں تھے
صبح خواب سننے پر
سب بزرگ کہہ دیتے
خواب کی یہ باتیں ہیں
ہم سے دور بیتیں گی
دور سے سنیں گے ہم
اب جدا سی دنیا ہے
ان کہے زمانوں کے
جیتے جاگتے لمحے
دھیان سے گزرتے ہیں
سوچ میں اترتے ہیں
پر وہ دن نہیں آئے
جس میں جاگتی تقدیر
صبح وہ نہیں چھوٹی
خواب کی جو دے تعبیر


دور سے سنا ہم نے
برف میں کھلی کونپل
غرب میں مچی ہلچل
حریت حقوق افکار
ذوق آرزو آثار
ذہن کی کماں داری
رنگ نادرہ کاری
علم اس کی تعمیریں
برق ایٹم آہن سے
جسم کھیل صحت تک
ارتقا کی تعبیریں
دور سب سمندر پار
اپنے خواب کیسے ہیں
جو نظر نہیں آتے
انتشار اتنا ہے
سو طرح کی تعبیریں