ہوا مری رازداں نہیں ہے
ہوا مری رازداں نہیں ہے
کہ چتر اس کا
ہزار سایوں پہ مہرباں ہے
کروڑوں لوگوں کے سوز انفاس کا دھواں ہے
ہوا فقط اس نحیف لمحے کی داستاں ہے
کہ جس کا عالم گزشتنی ہے
جو اک نفس کا ہی میہماں ہے
ہوا ہی ساری مہک اگلتی ہوئی بہاروں کی ترجماں ہے
ہمارے اندر چھپے وجودوں
سبک مساموں کی رازداں ہے
گزرتے جسموں کو نشر کرتی ہوئی ہوا رازداں نہیں ہے
مگر ہوا تیرے میرے خوابوں کے درمیاں سانس
پھونکتی ہے
ہماری سانسوں کی ڈوریوں کو
ہمارے جسموں سے جوڑتی ہے
ہمارے تانبے ہمارے پیتل ہمارے سب ساگوان چہرے
ہمارے اپنوں کے تن کی ٹھنڈی مہک کے غازے سے
ڈھانپتی ہے
مرا ہوا سے فقط یہی ایک رابطہ ہے
اسے مرا رازداں نہ کہنا
ہوا سے اپنے عذاب لمحات کی کوئی داستاں نہ کہنا